اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذَا یُوْمٌ تَبَرَّكَتْ بِہٖ بَنُوْ اُمَیَّۃِ (اے اللہ ! یہ وہ دن ہے جس کو بنی امیہ نے بابرکت قرار دیا ہے)۔ صاحب شفاء الصدور نے زیارت کے مندرجہ بالا جملے کے ذیل میں ایک طویل حدیث سے اس کی تشریح فرمائی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی امیہ آج کے منحوس دن کو چند وجوہات کی بنا پر بابرکت تصور کرتے تھے۔

۱۔ بنی امیہ نے آج کے دن آئندہ سال کے لئے غلہ و جنس جمع کر رکھنے کو مستحب جانا اور اس کو وسعت رزق اور خوشحالی کا سبب قراردیا ،چنانچہ اہلبیت کی طرف سے ان کے اس زعم باطل کی باربار تردید اور مذمت کی گئی ہے۔

۲۔ بنی امیہ نے آج کے دن کو روز عید قرار دیا اور اس میں عید کے رسوم جاری کیے ۔جیسے اہل و عیال کے لئے عمدہ لباس و خوراک فراہم کرنا ،ایک دوسرے سے گلے ملنا اور حجامت بنوانا وغیرہ لہذا یہ امور ان کے پیروکاروں میں عام طور پر رائج ہو گئے۔

۳۔ انہوں نے آج کے دن کا روزہ رکھنے کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں وضع کیں اور اس دن روزہ رکھنے پر عمل پیرا ہوئے۔

۴۔ انہوں نے عاشور کے دن دعا کرنے اور اپنی حاجات طلب کرنے کو مستحب قرار دیا اس لئے اس سے متعلق بہت سے فضائل اور مناقب گھڑ لیے، نیز آج کے دن پڑھنے کے لئے بہت سی دعائیں بنائیں اور انہیں عام کیا تاکہ لوگوں کو حقیقت واقعہ کی سمجھ نہ آئے چنانچہ وہ آج کے دن اپنے شہروں میں منبروں پر جو خطبے دیتے ،ان میں یہ بیان ہوا کرتا تھا کہ آج کے دن ہر نبی کے لئے شرف اور وسیلے میں اضافہ ہوا مثلا نمرود کی آگ بجھ گئی، حضرت نوحؑ کی کشتی کنارے لگی، فرعون کا لشکر غرق ہوا، حضرت عیسیٰؑ کو یہودیوں کے چنگل سے نجات حاصل ہوئی یعنی یہ سب امور آج کے دن وقوع میں آئ ے۔تاہم ان کا یہ کہنا سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اس بارے میں شیخ صدوق نے جبلہ مکیہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے میثم تمار سے سنا وہ کہتے تھے: خدا کی قسم! یہ امت اپنے نبیؐ کے فرزند کو دسویں محرم کے دن شہید کرے گی اور خدا کے دشمن اس دن کو بابرکت دن تصور کریں گے یہ سب کام ہو کر رہیں گے اور یہ باتیں اللہ کے علم میں آ چکیں ہیں یہ بات مجھے اس عہد کے ذریعے سے معلوم ہے، جو مجھ کو امیر المؤمنینؑ کی طرف سے ملا ہے جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے میثم سے عرض کی کہ وہ لوگ امام حسینؑ کے روز شہادت کو کس طرح بابرکت قراردیں گے؟ تب میثم رو پڑے اور کہا لوگ ایک ایسی حدیث وضع کریں گے جس میں کہیں گے کہ آج کا دن ہی وہ دن ہے کہ جب حق تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول فرمائی۔ حالانکہ خدائے تعالیٰ نے ان کی توبہ ذی الحجہ میں قبول کی تھی۔ وہ کہیں گے آج کے دن ہی خدا نے حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا حالانکہ خدا نے ان کو ذی القعدہ میں شکم ماہی سے نکالا تھا۔ وہ تصور کریں گے کہ آج کے دن حضرت نوحؑ کی کشتی جودی پر رکی، جبکہ کشتی ۱۸ ذی الحجہ کو رکی تھی۔ وہ کہیں گے کہ آج کے دن ہی حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کیلئے دریا کو چیرا، حالانکہ یہ واقعہ ربیع الاول میں ہوا تھا، خلاصہ یہ کہ میثم تمار کی اس روایت میں مذکورہ تصریحات وہ ہیں جو اصل میں نبوت و امامت کی علامات ہیں اور شیعہ مسلمانوں کے برسر حق ہونے کی روشن دلیل ہیں۔ کیونکہ اس میں ان باتوں کا ذکر ہے جو ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں پس یہ تعجب کی بات ہے کہ اس واضح خبر کے باوجود ان لوگوں نے اپنے وہم وگمان کی بنا پر قرار دی ہوئی جھوٹی باتوں کے مطابق دعائیں بنا لی ہیں جو بعض بے خبر اشخاص کی کتابوں میں درج ہیں کہ جن کو ان کی اصلیت کا کچھ بھی علم نہ تھا۔

ان کتابوں کے ذریعے سے یہ دعائیں عوام کے ہاتھوں میں پہنچ گئی ہیں، لیکن ان دعاؤں کا پڑھنا بدعت ہونے کے علاوہ حرام بھی ہے ان بدعت و حرام دعاؤں میں سے ایک یہ ہے۔

بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، سُبْحَانَ ﷲِ مِلْیَٔ الْمِیْزَانِ،
1
خدا کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے پاک ہے اللہ ترازو کے پورا ہونے،
1
وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ، وَمَبْلَغَ الرِّضَا، وَزِنَۃَ الْعَرْشِ۔
2
علم کی آخری حدوں اور خوشنودی کی رسائی اور وزن عرش کے برابر۔
2

دو تین سطروں کے بعد یہ ہے کہ دس مرتبہ صلوات پڑھے پھر یہ کہے:

یَا قَابِلَ تَوْبَۃِ اٰدَمَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ، یَارَافِعَ اِدْرِیْسَ اِلَی السَّمَاءِ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ
3
اے روز عاشور آدمؑ کی توبہ قبول کرنے والے، اے عاشور کے دن ادریسؑ کو آسمان پر لے جانے والے
3
یَا مُسَكِّنَ سَفِیْنَۃِ نُوْحٍ عَلَی الْجُوْدِیِّ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ،
4
اے اے روز عاشور نوحؑ کی کشتی کو جودی پہاڑ پر ٹکانے والے
4
یَا غِیَاثَ اِبْرَاھِیْمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ۔
5
اے یوم عاشور ابراہیمؑ کو آگ سے نجات دینے والے
5

اس میں شک نہیں کہ یہ دعا مدینے کے کسی ناصبی یا مسقط کے کسی خارجی نے یا ان کے کسی ہم عقیدہ نے گھڑی ہے ،اس طرح اس نے وہ ظلم کیا ہے جو بنی امیہ کے ظلم کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے یہ بیان کتاب شفاء الصدور کے مندرجات کا خلاصہ ہے جو یہاں ختم ہو گیا ہے۔