موت کے آثار رونما ہونے پر توبہ

جاننا چاہیئے کہ جب کسی فرد پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں تو جسے سب سے پہلے مرنے والے کے حالات کو سنبھالنا چاہیئے وہ خود مرنے والا ہی ہے جس کو آخرت کا سفر در پیش ہے، اور اسے اس سفر کے لیے زاد راہ کی ضرورت ہے۔ پس سب سے پہلا اور ضروری کام جو اسے کرنا چاہیئے وہ اپنے گناہوں کا اعتراف اور کوتاہیوں کا اقرار ہے کہ گذشتہ پر ندامت کے ساتھ صدق دل سے توبہ کرے اور خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں آہ و زاری کرے کہ وہ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے اور پیش آمدہ حالات اور ہولناک واقعات میں اس کو نہ تو خود اس کے حوالے کرے اور نہ دوسروں کے سپرد کرے۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ

پھر اپنی مصیبت کی طرف توجہ کرے اور حقوق اللہ و حقوق العباد جو اس کے ذمے نکلتے ہیں انہیں خود ادا کرے اور دوسروں کے سپرد نہ کرے، کیونکہ مرنے کے بعد اس کے سبھی اختیارات اوروں کے ہاتھ آ جاتے ہیں اور اس کے پاس نہیں رہتے، پھر وہ اپنے مال و متاع کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھتا رہتا ہے۔ تب جن و انس میں سے شیطان اس مرنے والے کے وارثوں کے دلوں میں وسوے ڈالتے رہتے ہیں اور اس امر میں مانع ہوتے ہیں کہ وہ اس کے ذمے رہ جانے والے واجبات سے اس کو بری کریں، اُس وقت یہ بات اِس کے بس سے باہر ہوتی ہے کہ کسی سے یہ کہے کہ اسے دنیا میں لوٹا یاجائے تا کہ وہ اپنے مال سے شائستہ اعمال بجا لائے۔ اس وقت اس کی چیخ و پکار کوئی نہیں سنتا اور اس کی حسرت و پشیمانی بے سود ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے مال میں ایک تہائی کی وصیت کر دے کہ یہ اس کے قریبی رشتہ داروں کو دیا جائے اور اس میں سے صدقہ و خیرات اور جو اس کے مناسب حال ہے خرچ کیا جائے، کیونکہ وہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کا اختیار نہیں رکھتا۔ پھر وہ اپنے مومن بھائیوں سے معافی مانگے کہ ان کے جو حقوق اس پر ہیں ان سے بری الذمہ ہو جائے، مثلاً جس کی غیبت کی ہے یا توہین کی ہے یا کسی کو دکھ پہنچایا ہے وہ افراد موجود ہوں تو ان سے التماس کرے کہ وہ اسے معاف کر دیں، اگر وہ موجود نہ ہوں تو مومن بھائیوں سے درخواست کرے کہ وہ اس کی معافی کے لیے دعا مانگیں تاکہ جو کچھ اس کے ذمہ ہے وہ اس سے بری اور سبکدوش ہو جائے۔

اہل و عیال کے معاملات

پھر اپنے اہل و عیال اور اولاد کے معاملات کو خداوند کریم پر توکل کے بعد کسی امانت دار شخص کے سپرد کرے اور اپنے چھوٹے بچوں کے لیے کوئی وصی مقرر کرے۔ اس کے بعد اپنا کفن منگوائے اور جو کچھ مفصل کتابوں میں درج ہے، یعنی کلمہ شہادتین، اذکار، عقائد، دعائیں، اور آیات اس پر خاک شفا سے لکھوائے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ اس سے پہلے غفلت میں رہا اور اپنا کفن تیار کر کے نہ رکھا ہو، ورنہ مومن کو چاہیئے کہ وہ ہمیشہ اپنا کفن تیار کر کے رکھے، جو ہر وقت اس کے پاس موجود رہے، جیسا کہ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کفن اس کے گھر میں موجود ہوتا ہے اس کو غافلوں کی فہرست میں نہیں لکھا جاتا، اور وہ جب بھی اپنے کفن پر نظر کرتا ہے تو اسے ثواب ملتا ہے۔

اور اب اپنے بیوی بچوں سے بے فکر ہو کر پوری طرح سے بارگاہ رب العزت کی طرف متوجہ ہو جائے اور اس کی یاد میں لگ جائے۔ یہ فکر کرے کہ یہ فانی امور اس کے کام نہیں آئیں گے اور پروردگار کی مہربانی اور اس کے لطف و کرم کے بغیر دنیا و آخرت میں کوئی چیز اسے فائدہ نہیں دے گی اور اس کی فریاد رسی نہیں کرے گی۔ اس بات کا یقین کرے کہ اگر حق تعالیٰ کی ذات پر توکل کرے گا تو اس کے پسماندگان کے تمام معاملات اچھے طریقے سے انجام پائیں گے۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھے کہ اگر وہ خود زندہ رہ جائے تو بھی مشیت الٰہی کے بغیر و ہ انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا، نہ ان سے کسی ضرر کو دور کر سکے گا۔ اور جس خدا نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے، اس وقت اسے رحمت خداوندی کا بہت زیادہ امیدوار ہونا چاہیئے۔

اخروی زندگی کے بارے میں حسن ظن

نیز حضرت رسولؐ اکرم اور ائمہ معصومین کی شفاعت کی آس رکھنی چاہیئے ان کی تشریف آوری کا منتظر ہونا چاہیئے، بلکہ اس بات کا یقین رکھنا چاہیئے کہ وہ ذوات مقدسہ اس وقت تشریف فرما ہوتی اور اپنے شیعوں کو خوشخبریاں دیتی ہیں اور ملک الموت سے ان کے بارے میں سفارشیں کرتی ہیں۔