۱۔ بِسْم اللہ پڑھنا

قال رسول اللہ: لَا یَرُدُّ دُعَاء اَوَّلُہٗ بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
1
رسول اللہؐ فرماتے ہیں: وہ دعا رد نہیں ہوتی جس کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لیا جائے۔ (میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥)
1

۲۔ تمجید

قال رسول اللہ: اِنَّ كُلُّ دُعَاءٍ لَا یكُوْنَ قَبْلَہٗ تَمْجیْد فَھُوَ اَبْتَرْ۔
2
ہر وہ دعا کہ جس سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و تمجید اور حمد و ثنا نہ ہو وہ ابتر ہے اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا۔ (میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥)
2

۳۔ صلوات بر محمدؐ و آل محمدؐ

قال رسول اللہ: صَلَاتُكُمْ عَلَّی اِجَابَة لِدُعَائِكُمْ وَزَكَاة لِأَعْمَالِكُمْ۔
3
رسول اکرمؐ فرماتے ہیں: تمہارا مجھ پر درود و صلوات بھیجنا تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کی زکاة ہے۔ (میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥)
3

امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:

لَا یزَالُ الدُّ عَاء محجُوْبًا حَتّٰی یُصَلِّیْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ
4
دعا اس وقت تک پردوں میں چھپی رہتی ہے جب تک محمدؐ وآل محمدؐ پر صلوات نہ بھیجی جائے۔ (میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥)
4

حضرت امام جعفر صادقؑ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں: جو شخص خدا سے اپنی حاجت طلب کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات بھیجے پھر دعا کے ذریعہ اپنی حاجت طلب کرے اس کے بعد آخرمیں درود پڑھ کر اپنی دعا کو ختم کرے (تو اس کی دعا قبول ہو گی) کیونکہ خداوند کریم کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ وہ دعا کے اول و آواخر (یعنی محمدؐ و آل محمدؐ پر درود و صلواة ) کو قبول کرے اور دعا کے درمیانی حصے (یعنی اس بندے کی حاجت ) کو قبول نہ فرمائے۔ (میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥)

۴۔ آ ئمہ معصومین کی امامت ولایت کا اعتقاد رکھنا اور انہیں واسطہ اور شفیع قرار دینا

قال اللہ تعالٰی: فَمَنْ سَأَلَنِیْ بِھِمْ عَارِفًا بِحَقّھِمْ وَمَقَامِھِمْ اَوْجَبْتَ لَہٗ مِنِّیْ اَلْاِجَابَةَ
5
خدا فرماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرمؐ اور آئمہ معصومینؑ کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے اور دعا مانگے جبکہ وہ ان کے حق اور مقام کو پہچانتا ہو تو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں۔ (وسائل ،ابواب دعا ،باب ٣٧ حدیث ٧)
5

امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں:

مَنْ دَعَا ﷲ بِنَا اَفْلَحَ
6
یعنی جو شخص ہم اہلبیتؑ کا واسطہ دے کر دعا کرے تو وہ شخص کامیاب و کامران ہے۔ (وسائل ،ابواب دعا ،باب ٣٧ حدیث ۱۰)
6

جناب یوسفؑ کے واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ جناب جبرائیلؑ حضرت یعقوبؑ کے پاس آئے اور عرض کی کیا میں آپ کو ایسی دعا بتاؤں کہ جس کی وجہ سے خدا آپ کی بینائی اور آپ کے دونوں بیٹے (یوسف و بنیامین) آپ کو واپس لوٹا دے حضرت یعقوبؑ نے کہا وہ کون سی دعا ہے؟

فقال جبرَائیل: قُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَعَلِّیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسنِ وَالْحُسَینِ اَنْ تَأتِیْنیْ بِیُوْسُفَ وَبُنْیَامِیْنَ جَمِیَا وَتُرَدُّ عَلیَّ عَیْنیِ
7
حضرت جبرائیلؑ نے حضرت یعقوبؑ سے کہا کہ یوں دعا مانگو خدایا میں تجھے محمدؐ، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ و حسینؑ کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے دونوں بیٹوں (یوسفؑ اور بنیامین) کو اور میری بینائی کو واپس لوٹا دے۔
7

جناب یعقوبؑ کی یہ دعا ابھی تمام ہی ہوئی تھی کہ قاصد (بشیر) نے آ کر جناب یوسفؑ کی قمیص حضرت یعقوبؑ پر ڈال دی تو آپ کی آنکھیں بینا ہو گئیں۔

حدیث قدسی میں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے چالیس شب عبادت کرنے کے بعد دعا کی لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تواس نے حضرت عیسیٰؑ کے پاس شکایت کی حضرت عیسیٰؑ نے بارگاہ خداوندی سے سوال کیا تو جواب ملا کہ اس نے دعا کا صحیح راستہ اختیار نہیں کیا:

اِنَّہٗ دُعَانِیْ وَفِیْ قَلْبِہ شَك مِنْكَ
8
کیوں کہ وہ مجھ سے تو دعا کرتا ہے اور حاجت طلب کرتا ہے لیکن اس کے دل میں تیری نبوت کے بارے میں شک ہے (یعنی تیری نبوت کا معتقد نہیں ہے)۔ (کلمة اللہ حدیث ٩٣)
8

لہذا وہ اگر اس (شک اور عدم اعتقاد کی ) حالت میں اتنا دعا کرے کہ اس کا سانس ختم ہو جائے اور اس کی انگلیاں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تب بھی میں اس کی دعا قبول نہیں کروں گا۔

۵۔ گناہوں کا اقرار کرنا

قال الامام الصادق: انَّمَا ھِیَ اَلْمِدْحَةُ ثُمَّ الْاِقْرَارُ بِا الّذُنُبِ ثُمَّ الْمَسْئَلَة
9
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خدا کی حمد و تعریف کرو پھر گناہوں کا اقرار اور پھر اپنی حاجت طلب کرو۔ (میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٠)
9

۶۔ خشوع و خضوع کے ساتھ اور غمگین حالت میں دعا مانگنا

قال اللہ: یَا عِیْسٰی اَدْعُوْنِیْ دُعَاءَ الْحَزِیْنِ الْغَریِقْ اَلَّذِیْ لَیْسَ لَہٗ مُغِیْث
10
خدا فرماتا ہے اے عیسیٰؑ مجھ سے اس غرق ہونے والے غمگین انسان کی طرح دعا مانگو جس کا کوئی فریادرس نہ ہو۔ (میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٢)
10

۷۔ دو رکعت نماز پڑھنا

امام جعفر صادقؑ فرماتے جو شخص دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد دعا کرے تو خدا اس کی دعا قبول فرمائے گا۔ (میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٥)

۸۔ اپنی حاجت اور مطلوب کو زیادہ نہ سمجھو

رسول اکرمؐ سے روایت ہے خدا فرماتا ہے کہ اگر ساتوں آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے مل کر مجھ سے دعا مانگیں اور میں ان سب کی دعاؤں کو قبول کر لوں اور ان کی حاجات پوری کر دوں تو میری ملکیت میں مچھر کے پر کے برابر بھی فرق نہیں آئے گا۔ (میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٩)

۹۔ دعا کو عمومیت دینا

قال رسول اللہ: اِذَادَعَا اَحَدَكُمْ فَلْيُعِمَّ فَاِنَّہٗ اَوْجَبَ لِلدُّعَاءِ
11
پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو اسے چاہیے کہ کہ اپنی دعا کو عمومیت دے یعنی دوسروں کو بھی دعا میں شریک کرے کیونکہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ (میزان الحکمة حدیث ٥٦٤٧)
11
قال الامام الصادق: مَنْ قَدَّمَ اَرْبَعِیْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ثُمَّ دَعَاہ اَسْتُجِیْبُ لَہٗ
12
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ جو شخص پہلے چالیس مومنین کے لئے دعا کرے اور پھر اپنے لئے دعا مانگے تو اس کی دعا قبول ہو گی (میزان الحکمة حدیث ٥٦٤٨)
12

۱۰۔ قبولیت دعا کے بارے میں حسن ظن رکھنا