مؤلف کہتے ہیں: یاد رہے کہ جب زائر مدائن آئے اور حضرت سلمان فارسیؓ کی زیارت کر چکے تو وہاں اسے دو اور کام بھی کرنا چاہیں۔ اور وہ یہ ہیں ایوان کسریٰ میں جانا اور حضرت حذیفۂ یمانی کی زیارت کرنا۔

پس ہر زائر کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایوان کسریٰ میں جائے اور وہاں دو رکعت یا اس سے زیادہ نماز ادا کرے کیونکہ اس جگہ امیر المؤمنینؑ نے نماز پڑھی تھی۔ عمار ساباطی سے روایت ہے کہ امیر المؤمنینؑ مدائن تشریف لائے اور ایوان کسریٰ میں گئے اور دلف بن بحیر آپ کے ہمراہ تھے۔ یہاں آپؑ نے نماز ادا کی اور دلف بن بحیر سے فرمایا کہ میرے ساتھ چلو اور آپ بھی چل پڑے جب کہ اہلِ ساباط میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ تھا۔ آپ کسریٰ کے محل میں داخل ہوئے اور دلف بن بحیر سے فرماتے جا رہے تھے کہ یہاں کسریٰ کی فلاں چیز اور وہاں فلاں چیز ہوتی تھی، دلف کہتے تھے قسم بخدا کہ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں وہ درست اور سچ ہے۔ آپ اس گروہ کے ساتھ کسریٰ کے محل میں چلنے پھرنے کے دوران اس کے بارے میں حقائق بیان کرتے جاتے تھے۔ دلف کہتے تھے کہ اے میرے مولا! آپ تو اس محل کی ہر خاص بات کو جانتے ہیں گویا کہ آپ نے اس کی ہر چیز کو اپنے ہاتھ سے رکھا ہے۔

روایت ہے کہ اس وقت آپ مدائن پر نگاہ ڈالتے ہوئے کسریٰ کے برباد شدہ محل اور اس کے آثار کو ملاحظہ فرما رہے تھے۔ ایسے میں آپ کے ساتھیوں میں سے کسی ایک نے عبرت کے لیے یہ شعر پڑھا:

جَرَتِ الرِّیَاحُ عَلٰی رُسُوْمِ دِیَارِھِمْ، فَكَٲَنَّھُمْ كَانُوْا عَلٰی مِیْعَادِ
1
ان کے ویران محلوں پر ہوائیں خاک اڑاتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا وقت مقرر تھا جو گزر گیا۔
1

حضرتؑ نے اس شخص سے فرمایا کہ یہاں تم یہ آیات کیوں نہیں پڑھتے: (سورۂ دخان، آیات 25 تا 29)

كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُیُوْنٍ۔ وَزُرُوْعٍ وَمَقَامٍ كَرِیْمٍ۔
2
وہ کتنے ہی باغات چھوڑ گئے، چشمے، کھیتیاں اور اونچے مرتبے
2
وَنَعْمَۃٍ كَانُوْا فِیْہَا فَاكِھِیْنَ۔
3
اور وہ نعمتیں جن میں خوش تھے
3
كَذٰلِكَ وَٲَوْرَثْنَاہَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ۔
4
اسی طرح ہم نے وہ چیزیں بعد والوں کو دے دیں
4
فَمَا بَكَتْ عَلَیْھِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ وَمَا كَانُوْا مُنْظَرِیْن۔
5
پس ان پر آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ان کو مہلت ملی
5

اس کے بعد آپ نے فرمایا:

اِنَّ ھٰؤُلَاءِ كَانُوْا وَارِثِیْنَ، فَٲَصْبَحُوْا مَوْرُوْثِیْنَ
6
بے شک یہ وارث ہوئے، پھر وراثت چھوڑ گئے
6
لَمْ یَشْكُرُوا النِّعْمَۃَ، فَسُلِبُوْا دُنْیَاھُمْ بِالْمَعْصِیَۃِ
7
انہوں نے نعمتوں پر شکر نہ کیا، ان کی دنیا چھن گئی نافرمانی کی وجہ سے
7
اِیَّاكُمْ وَكُفْرَ النِّعَمِ لَا تَحُلُّ بِكُمُ النِّقَمُ۔
8
اس لیے کہ تم نعمتوں پر ناشکری نہ کرو اور تم پر سختی نہ آئے۔
8

اس واقعہ کو حکیم خاقانی نے ان اشعار میں بیان فرمایا ہے:

ہان ای دل عبرت بین از دیدہ نظر کن ہان، ایوان مدائن را آئینہ عبرت دان

پرویز کہ بنہادی برخوان ترہ زرین، زرین ترہ کو برخوان؟ روکم تر کو بر خوان

اے عبرت پکڑنے والے دل! مدائن کے اجڑے محل پر نظر کر اور عبرت کا ذریعہ سمجھ کہ پرویز جو اپنے دسترخوان پر سنہری پارچہ ڈالتا تھا اب اس کا وہ دستر خوان کہاں ہے؟ اس کے حال پر آیۂ کَمْ تَرَکُوا پڑھ کہ وہ مر گیا اور اس کا محل کھنڈر بن چکا ہے۔