واضح رہے کہ مومنین کی قبروں کی زیارت کے بہت زیادہ ثواب اور بہت سے فوائد کے علاوہ یہ عبرت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اس سے دنیا میں زہد و قناعت اور آخرت کی طرف میلان اور توجہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ پس ایک عاقل انسان کو قبرستان میں جا کر عبرت حاصل کرنا چاہیے تاکہ دنیا کی رغبت اس کے دل میں کم ہو، دنیا کے مال و دولت کی مٹھاس اس کے حلق میں کڑوی معلوم ہو اور وہ دنیا کے فنا ہونے اور اس میں تغیر حال کے پہلو پر غور و فکر کرے کہ تھوڑے عرصے کے بعد میں بھی ان اہل قبور میں شامل ہو جاؤں گا۔ تب وہ عمل سے عاجز اور دوسروں کیلئے سامان عبرت ہو گا۔ اس مضمون کو نظامی نے بڑے عبرت آموز انداز میں بیان کیا ہے۔
زندہ دلی در صف افسردگان، رفت بہ ہمسائیگی مردگان
حرف فنا خواندز ہر لوح پاک، روح بقا جست زہر روح پاک
کارشناسی پی تفتیش حال، کرداز اوبر سرراہی سوال
کین ہمہ از زندہ رمیدن چراست، رخت سوی مردہ کشیدن چراست
گفت پلیدان بمغاک اندر ند، پاک نہادان تہ خاک اندر ند
مردہ دلانند بروی زمین، بہرچہ با مردہ شوم ہم نشین
ہمدمی مردہ دہد مردگی، صحبت افسردہ دل افسردگی
زیر گل آنانکہ پراگندہ اند، گرچہ بتن مردہ بدل زندہ اند
مردہ دلی بود مرا پیش از این، بستہ ہر چون و چرا پیش از این
زندہ شدم از نظر پاک شان، آب حیات است مرا خاک شان
ترجمۂ اشعار
ایک زندہ دل غمگین لوگوں کے ہجوم میں اہل قبور کا ہمسایہ بننے کے لیے جا رہا تھا
اس نے ہر پاک کتبے پر فنا کا پیغام پڑھا اور اس کی روح نے ہر پاک روح سے بقا کا راز دریافت کیا۔
ایک مرد عارف نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے راہ چلتے میں اس سے پوچھا
ان زندہ لوگوں کو چھوڑ کے جانے کا کیا سبب ہے اور مرے ہوئے لوگوں کی طرف روانگی کی کیا وجہ ہے؟
اس نے جواب دیا کہ بد باطن لوگ تاریکی کے گڑھے میں پڑے ہیں اور پاک دل اشخاص زیر خاک سو رہے ہیں۔
روئے زمین پر مردہ لوگوں کا اجتماع ہے، پھر کس لیے میں ان سیاہ دل افراد کی صحبت میں رہوں۔
جب کہ مردہ دل ہم نشیں سے مردہ دلی ملتی ہے اور رنجیدہ آدمی سے رنج و غصہ حاصل ہوتا ہے
مگر وہ افراد جو زیر زمین بکھرے ہوئے ہیں اگرچہ ان کے جسم مردہ ہیں تو بھی ان کے دل زندہ ہیں۔
آج سے قبل مجھ پر مردہ دلی چھائی ہوئی تھی اور میں کیوں اور کیسے کے چکر میں پھنسا ہوا تھا۔
تاہم آج میں ان اہل قبور کی ہمسائیگی میں آ کر ان کی نگاہ پاک سے زندہ دل بن گیا ہوں گویا ان کی خاک میرے لیے آب حیات ہے۔
عرض مؤلف در اختتام کتاب
اس مرحلے پر وہ تمام اعمال و عبادات اور ادعیہ و زیارات تکمیل کو پہنچیں جن کا اس با برکت کتاب میں درج کیا جانا ضروری تھا۔ چنانچہ یہ کتاب آج بروز اتوار 10 ذی القعدہ 1344ھ کی شام کو مکمل ہوئی ہے کہ جو ثامن الائمہ امام رضاؑ کی شب ولادت ہے۔ چونکہ آج ہی مجھے اپنی والدۂ محترمہ کی وفات کا اطلاع نامہ موصول ہوا ہے، لہٰذا جو برادران ایمانی اس کتاب سے مستفید ہوں گے ان سے التماس ہے کہ وہ ان مرحومہ مغفورہ کیلئے دعائے مغفرت کریں۔ نیز میرے لیے اور میرے والد مکرم کیلئے، ہماری زندگی میں اور بعد از وفات بھی دعائے خیر فرمائیں۔
والحمد للّٰہ اولا واٰخرا، وصلی اللہ علی محمد واٰلہ الطاھرین