مؤلف کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ حضرت رسولؐ کے یوم ولادت یا یوم بعثت میں امیر المؤمنین علیہ السلام کی زیارت پڑھنے کو کہا گیا ہے۔ حالانکہ مناسب یہ ہے کہ اس دن حضرت رسولؐ کی زیارت پڑھنے کا حکم ہو؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن دو بزرگوں کا آپس میں کمال اتصال ہے اور دونوں نور کے مکمل اتحاد کی علامت ہیں۔ گویا جس نے امیر المؤمنین علیہ السلام کی زیارت کی اس نے حضرت رسولؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ اس امر کی دلیل قرآن کریم کی آیت انفسنَا ہے، کیونکہ مباہلہ میں خدائے تعالیٰ نے امیر المؤمنین علیہ السلام کو نفس پیغمبر قرار دیا اور کسی دوسرے کو یہ مقام نہیں ملا۔

بہت سی روایتوں میں آیا ہے اور ان میں سے ایک شیخ محمد بن مشہدی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک اعرابی حضرت رسولؐ کے حضور حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرا گھر یہاں سے بہت دور ہے اور آپ کی زیارت کا اشتیاق کبھی کبھی مجھے یہاں لے آتا ہے، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی آپ سے شرف ملاقات حاصل نہیں ہو پاتا تو میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے ملاقات کر لیتا ہوں، اور وہ مجھے وعظ و نصیحت کرتے ہیں اور حدیث تعلیم فرما کر مانوس و مطمئن کر دیتے ہیں۔ تاہم آپ کی ملاقات نہ ہونے پر افسوس کے ساتھ واپس ہو جاتا ہوں۔ اس پر آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جو شخص علی المرتضیٰ علیہ السلام کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی، جو اسے دوست رکھتا ہے وہ مجھے دوست رکھتا ہے اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے دشمنی کرتا ہے۔ پس تم یہ بات میری طرف سے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو بتا دو کہ جو شخص علی علیہ السلام کی زیارت کیلئے جائے تو گویا وہ میری زیارت کو آیا ہے۔ پس میں، جبرائیل علیہ السلام اور ایک صالح مؤمن اس شخص کو قیامت میں اس عمل کی جزا دیں گے۔

ایک معتبر حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے کہ جب تم نجف اشرف کی زیارت کرو تو آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے ابدان اور علی علیہ السلام کے جسم کی زیارت کرتے ہو۔ اس میں شک نہیں کہ گویا تم نے ان کے آبا واجداد، نبیوں کے خاتم محمد مصطفٰیؐ اور حضرت علی علیہ السلام کی زیارت کی ہو گی کہ جو اوصیاء میں بہترین ہیں۔

قبل ازیں چھٹی زیارت میں ذکر ہو چکا ہے کہ حسب فرمان امیر المؤمنین علیہ السلام کی قبر مبارک کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو اور کہے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُوْلَ ﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا صَفْوَۃَ ﷲِ ۔۔۔ الخ
1
آپ پر سلام ہو اے خدا کے رسولؐ، آپ پر سلام ہو اے خدا کے برگزیدہ۔
1

ابیات قصیدہ ازریہ: شیخ جابر نے قصیدۂ ازریہ میں کیا خوب اشعار کہے ہیں حضرت علیؑ کے گنبد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہے:

فَاعْتَمِدْ لِلنَّبِیِّ ٲَعْظَمَ رَمْسٍ، فِیْہِ لِلطُّھْرِ ٲَحْمَدٍ ٲَیُّ نَفْسٍ
2
اعتماد کرو بہ خاطر پیغمبرؐ اس قبر شریف کو، اس میں احمدؐ کا نفس جاگزیں ہے
2
ٲَوْ تَرَی الْعَرْشَ فِیْہِ ٲَنْوَرَ شَمْسٍ، فَتَوَاضَعْ فَثَمَّ دَارَۃُ قُدْسٍ
3
یا اس عرش کو دیکھو اس میں چمکتا سورج ہے، پس جھک جا کہ یہ پاکیزہ مقام ہے
3
تَتَمَنَّی الْاَفْلَاكُ لَثْمَ ثَرَاھَا
4
تمنا کرتے ہیں افلاک کہ چومیں اس کی خاک کو
4

حکیم سنائی نے یہ فارسی کے اشعار کہے:

﴿۱﴾ مر تضائی کہ کر دیز دانش

ہمرہ جان مصطفی جانش

﴿۱﴾ علی مرتضیٰ وہ ہیں کہ خدا نے

ان کو جان مصطفیٰ قرار دیا۔

﴿۲﴾ ہر دو یک قبلہ وخرد شان دو

ہر دویک روح کا لبد شان دو

﴿۲﴾ ان دونوں کا قبلہ ایک اور عقلیں دو ہیں۔

ان کی روح ایک اور جسم دو ہیں۔

﴿۳﴾ دور وندہ چواختر گردوں

دوبرادر چوں موسیٰ وہارون

﴿۳﴾ وہ دونوں آسمان پر چلتے ہوئے ستارے ہیں

وہ موسٰیؑ وہارونؑ کی طرح دو بھائی ہیں

﴿۴﴾ ہر دویکدرز یکصدف بودند

ہر دو پیرایۂ شرف بودند

﴿۴﴾ وہ دونوں ایک صدف کے دو موتی ہیں

وہ دونوں شرف کے ایک ہی مقام پر ہیں۔

﴿۵﴾ تانہ بکشاد علم حیدر در

ند ہد سنت پیغمبرؐ بر

﴿۵﴾ جب تک حیدر کرار کا علم اپنا دروازہ نہ کھولے

پیغمبرؐ کی سنت کا میٹھا پھل حاصل نہیں ہوتا۔