سید ابن طاؤس نے خطیب مستغفری کی کتاب ”دعوات“ اور اس نے رسولؐ اللہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا جب تم کتاب اللہ (قرآن) سے فال لینا چاہو تو تین مرتبہ سورۂ توحید پڑھو اور اس کے بعد محمدؐ وآلؑ محمدؐ پر تین مرتبہ درود بھیجو اس کے بعد یہ کہو:

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ تَفَأَّلْتُ بِكِتَابِكَ وَتَوَكَّلْتُ عَلَیْكَ
1
اے معبود میں تیری کتاب سے فال لے رہا ہوں تجھی پر میرا بھروسہ ہے
1
فَأَرِنِیْ مِنْ كِتَابِكَ مَا هُوَ مَكْتُوْمٌ مِنْ سِرِّكَ
2
پس مجھے اپنی کتاب میں سے وہ چیز دکھا جو پوشیدہ ہے تیرے چھپے ہوئے راز سے
2
الْمَكْنُوْنِ فِیْ غَیْبِكَ
3
تیرے پردۂ غیب میں۔
3

اس کے بعد کہ قرآنِ جامع کہ جس میں تمام سورتیں اور آیتیں ہوں اسے ہاتھ میں لے کر کھولو پھر صفحہ و سطر شمار کیے بغیر داہنی طرف کی پہلی سطر سے فال لو۔

یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ مجلسی نے بعض علماء کی تالیفات میں شیخ یوسف قطیفی کے خط سے اور انہوں نے آیۃ اللہ علامہ کے خط سے نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا جب تم کتاب عزیز (قرآن) سے استخارہ کرنے کا ارادہ کرو تو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد یہ کہو:

اِنْ كَانَ فِیْ قَضَائِكَ وَقَدَرِكَ
4
الہی اگر تیرے حکم اور فیصلے میں یہ بات ہے
4
أَنْ تَمُنَّ عَلٰی شِیْعَةِ اٰلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهِمُ اَلسَّلَامُ
5
کہ شیعیان آلؑ محمدؐ پر احسان فرمائے
5
بِفَرَجِ وَلِیِّكَ وَحُجَّتِكَ عَلٰی خَلْقِكَ
6
کشائش دے کر اپنے ولی اور اپنی حجت پر جو تیری مخلوق کے لئے ہے
6
فَأَخْرِجْ اِلَیْنَا اٰیَةً مِنْ كِتَابِكَ نَسْتَدِلُّ بِہَا عَلٰی ذلِكَ
7
تو ظاہر فرما ہم پر ایسی آیت اپنی کتاب سے جو اس پر ہماری دلیل بن جائے۔
7

پھر قرآن مجید کھولے اور وہاں سے چھ صفحے شمار کرے، پس ساتویں صفحے کی سطر پر نظر کرے اور اس سے مطلب اخذ کرے۔

شیخ شہیدؒ نے اپنی کتاب ذکریٰ میں فرمایا ہے کہ استخاروں میں سے ایک استخارۂ عدد ہے جو سید کبیر رضی الدین محمد بن محمدآلادی مجاور روضۂ امیر المؤمنینؑ سے قبل مشہور نہ تھا۔ ہم اس استخارے کو تمام روایتوں کے ساتھ اپنے مشائخ میں سے شیخ کبیر فاضل جمال الدین بن مطہر سے اور وہ اپنے واالد گرامی سے اور وہ سید رضی الدین مذکور سے اور وہ حضرت صاحب العصرؑ سے روایت کرتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ دس مرتبہ اس سے کم تین مرتبہ اور کم ازکم ایک مرتبہ اور پھر سورۂ قدر دس مرتبہ پڑھے اور اس کے بعد تین مرتبہ یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُكَ لِعِلْمِكَ بِعَاقِبَةِ الْاُمُوْرِ
8
اے معبود میں تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں کہ تو معاملوں کے انجام کو جانتا ہے
8
وَأَسْتَشِیْرُكَ لِحُسْنِ ظَنِّیْ بِكَ فِی الْمَأْمُوْلِ وَالْمحْذُوْرِ
9
تجھ سے مشورہ کرتا ہوں کہ امیدوں اور خطروں میں تجھ ہی سے حسن ظن ہے
9
اَللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ الْاَمْرُ الْفُلَانِیْ مِمَّا نِیْطَتْ بِالْبَرَكَةِ أَعْجَازُهٗ وَبَوَادِیْهِ
10
اے معبود! اگر فلاں کام ان کاموں میں سے ہے کہ جن کے انجام میں برکت ہے اور آغاز میں بھی
10
وَحُفَّتْ بِالْكَرَامَةِ أَیَّامُهٗ وَلَیَالِیْهِ
11
اور اس کے دن رات نفع سے بھر پور ہیں
11
فَخِرْ لِیْ اَللّٰهُمَّ فِیْهِ خِیَرَةً تَرُدُّ شَمُوْسَهٗ ذَلُوْلًا
12
تو اے معبود تو میرے لئے اس خیر کو اختیار کر جس سے سرکش مطیع ہو جائے
12
وَتَقْعَضُ أَیَّامَهٗ سُرُوْرًا
13
اور دن خوشیوں سے بھر جائیں
13
اَللّٰهُمَّ اِمَّا أَمْرٌ فَأْتَمِرُ وَاِمَّا نَهْیٌ فَأَنْتَهِیْ
14
اے معبود اگر کرنے کا حکم ہے تو کروں اور نہیں ہے تو رکا رہوں
14
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُكَ بِرَحْمَتِكَ خِیَرَةً فِیْ عَافِیَةٍ
15
اے معبود میں تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں تیری رحمت سے ایسی خیر جس میں آرام ہو۔
15

پھر تسبیح کے کچھ دانے مٹھی میں لے کر اپنی حاجت دل میں لائے اگر مٹھی میں لئے ہوئے دانوں کی تعداد جفت ہے تو یہ ”افعل“ (اس کام کے کرنے کا حکم) اور طاق ہے تو یہ ”لا تفعل“ (اس کام کے بجانہ لانے کا حکم) ہے یا اس کے برعکس کہ طاق بہتر ہے اور جفت بہتر نہیں، یہ استخارہ کرنے والوں کی نیت سے وابستہ ہے۔ مؤلف کہتے ہیں تقعض ضاد معجمہ کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں لوٹ جائے، پلٹ جائے۔ اور ہم نے نمازوں کے باب میں استخارہ ذات الرقاع اور دیگر اقسام کے استخاروں کاذکر کیا ہے لہذا انکی طرف رجوع کیا جائے۔

استخارہ میں نیابت

جاننا چاہیے کہ سید ابن طاؤسؒ فرماتے ہیں ان کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مجھے اس بار ے میں کوئی صریح حدیث نہیں ملی کہ انسان کسی اور کیلئے بھی استخارہ کرسکتا ہے؟ لیکن مجھے ایسی بہت سی احادیث میں یہ بات ضرور نظر آتی ہے کہ دعاؤں اور توسل کے دیگر ذریعوں کے ساتھ اپنے مؤمن بھائیوں کی حاجات پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بلکہ روایات میں تو مؤمن بھائیوں کیلئے دعا کرنے کے اتنے فوائد بیان ہوئے ہیں کہ جن کے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ استخارے کا شمار بھی دعاؤں اور حاجتوں میں ہے اور جب کوئی شخص کسی سے استخارہ کرنے کو کہتا ہے تو گویا اس کے سامنے اپنی حاجت پیش کر رہا ہوتا ہے، اور جو استخارہ کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے لئے استخارہ کرتا ہے تاکہ اسے بتائے آیا اس میں مصلحت ہے کہ اس سے کہے یہ کام کرو یا نہ کرو، وہ اسے بتانا چاہتا ہے کہ اس کام کے کرنے میں مصلحت ہے یا اس کے نہ کرنے میں مصلحت ہے۔ پس اس بات کا تعلق استخاروں اور حاجتوں کے پورا کرنے کے ضمن میں نقل شدہ روایات سے ہے کہ علامہ مجلسیؒ کا ارشاد ہے کہ سید کا کلام دوسروں کے لئے استخارہ کرنے کے جواز میں قوت سے خالی نہیں ہے، کیونکہ اس کا تعلق عوامی ضرورتوں سے ہے۔ خصوصاً اس صورت میں جب استخارہ کرانے والے کا نائب اس چیز کا قصد کرے کہ وہ اس شخص کا نائب بن کر کہہ رہا ہے کہ اس کام کو انجام دو یا انجام نہ دو۔جیسا کہ سیدؒ نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے یہ استخارے کو خاص روایات و اخبار کے تحت لانے کا ایک ذریعہ ہے۔ تاہم زیادہ احتیاط اور زیادہ بہتری اسی میں ہے کہ صاحب حاجت اپنے لئے خود استخارہ کرے کیونکہ ہمیں کوئی ایسی روایت نہیں ملی کہ جس میں استخارہ میں وکالت کو جائز قرار دیا گیا ہو۔ اگر یہ عمل جائز یا قابل ترجیح ہوتا تو آئمہ کے اصحاب ان حضراتؑ سے اس بارہ میں ضرور پوچھتے اور اگر پوچھا گیا ہوتا تو ضرور ہم تک یہ بات پہنچ جاتی اور کم ازکم ایک ہی ایسی روایت مل جاتی، ماسوائے اس کے کہ مضطر اور پریشان حال قبولیت دعا کے سلسلے میں فوقیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کی دعا خلوص نیت سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔