بیان کیا گیا ہے کہ وقت شہادت حضرت عباسؑ کی عمر چونتیس برس تھی۔ اور جناب ام البنینؑ جو ان کی والدہ تھیں، وہ مدینہ کے باہر قبرستان بقیع میں آ کر حضرت عباسؑ اور ان کے دیگر تین بھائیوں کا ماتم کرتے ہوئے اس طرح روتیں اور بین کرتی تھیں کہ جو بھی وہاں سے گزرتا وہ آنسو بہانے لگتا تھا۔ دوستوں اور چاہنے والوں کا رونا تو کوئی بڑی بات نہیں، ان بی بی کا نوحہ و ماتم سن کر تو مروان بن الحکم بھی رو دیتا تھا جو خاندان رسولؐ کا سخت ترین دشمن تھا۔ حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں کے مرثیہ میں یہ اشعار بی بی ام البنینؑ سے نقل ہوئے ہیں:

یَا مَنْ رَٲَی الْعَبّاسَ كَرَّ عَلٰی جَمَاھِیْرِ النَّقَد، وَوَرَاہُ مِنْ ٲَبْنَاءِ حَیْدَرَ كُلُّ لَیْثٍ ذِیْ لَبَد
1
اے وہ جس نے عباسؑ کو دیکھا جب بزدلوں پر حملہ کرتا تھا، ان کے پیچھے حیدر کرار کے بیٹے تھے جو ببر شیروں کی طرح تھے
1
ٲُنْبِیْتُ ٲَنَّ ابْنِیْ ٲُصِیْبَ بِرَٲْسِہٖ مَقْطُوْعَ یَد، وَیْلِیْ عَلٰی شِبْلِیْ ٲَمَالَ بِرَٲْسِہٖ ضَرْبُ الْعَمَد
2
مجھے خبر ملی کہ میرا بیٹا سر کے بل گرا اور اس کے بازو کٹے ہوئے تھے، ہائے میری مصیبت کہ گرز کی ضرب سے میرے بیٹے کا سر کٹ گیا
2
لَوْ كَانَ سَیْفُكَ فِیْ یَدَیْكَ لَمَا دَنَا مِنْہُ ٲَحَد۔
3
بیٹے اگر تیری تلوار تیرے ہاتھ میں ہوتی تو کوئی قریب نہ آ سکتا۔
3

نیز یہ اشعار بھی جناب ام البنینؑ کی طرف منسوب ہیں۔

لَا تَدْعُوِْنِّیْ وَیْكِ ٲُمَّ الْبَنِیْن، تُذَكِّرِیْنِیْ بِلُیُوْثِ الْعَرِیْن
4
اب مجھے بیٹوں کی ماں نہ کہا کرو، کہ تم مجھے شیر دل بہادروں کی یاد دلاتے ہو
4
كَانَتْ بَنُوْنَ لِیْ ٲُدْعی بِھِمْ، وَالْیَوْمَ ٲَصْبَحْتُ وَلَا مِنْ بَنِیْن
5
میرے بیٹے تھے تو مجھے بیٹوں والی کہا جاتا تھا، اب جو صبح ہوتی ہے تو میرے بیٹے کہیں نظر نہیں آتے
5
ٲَرْبَعَۃٌ مِثْلُ نُسُوْرِ الرُّبٰی، قَدْ وَاصَلُوا الْمَوْتَ بِقَطْعِ الْوَتِیْن
6
میرے چاروں بیٹے پہاڑوں کے شہباز تھے، وہ باری باری شہید ہوئے ان کی گردنیں کٹ گئیں
6
تَنَازَعَ الْخِرْصَانُ ٲَشْلَائَھُمْ، فَكُلُّھُمْ ٲَمْسٰی صَرِیْعًا طَعِیْن
7
ان پر نیزہ برداروں نے ہر طرف سے ہجوم کیا، تو وہ زخموں سے چور ہو کر زمین پر گر گئے
7
یَا لَیْتَ شِعْرِیْ ٲَكَمَا ٲَخْبَرُوْا، بِٲَنَّ عَبَّاسًا قَطِیْعُ الْیَمِیْن
8
ہائے افسوس میں سمجھ پاتی جیسے لوگوں نے کہا، کہ عباس کا دایاں بازو پہلے کٹا تھا
8