واضح ہو کہ مسجد براثا ایک مشہور اور بابرکت مسجد ہے جو بغداد اور کاظمین کے درمیان زائرین کے راستے میں واقع ہے، لیکن اکثر زائرین اس کے فیض و برکت سے محروم رہ جاتے ہیں، حالانکہ اس کے بہت سے فضائل و خصائص نقل ہوئے ہیں۔ 600 ھ کے مورخین میں سے حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ براثا بغداد کا ایک محلہ تھا جو باب محول کے جنوب میں واقع تھا اور محلۂ کرخ سے قبلہ کی جانب تھا۔ اس میں شیعوں کی ایک مسجد تھی جس میں وہ نماز پنجگانہ ادا کرتے تھے، تاہم بعد میں وہی مسجد غیر آباد ہو گئی۔ عباسی خلیفہ راضی باللہ کے زمانے سے پہلے شیعہ یہاں جمع ہو تے اور تبرا کرتے تھے، یہاں تک کہ راضی باللہ کے حکم سے فوجی اس مسجد پر چڑھ دوڑے اور جسے وہاں پایا گرفتار کر لیا اور قید میں ڈال دیا اور مسجد کو گرا کر زمین کے برابر کر دیا۔ شیعوں نے اس واقعہ سے بغداد کے حاکم حکم ماکانی کو مطلع کیا تو اس نے حکم دیا کہ اس مسجد کو وسیع و مضبوط شکل میں دوبارہ تعمیر کیا جائے۔ چنانچہ مسجد تعمیر ہو گئی اور اس نے اس کے صدر دروازے پر خلفیہ راضی باللہ کا نام نقش کرا دیا۔ اس وقت سے لے کر 450ھ تک یہ مسجد آباد رہی اور اس میں نماز با جماعت ادا کی جاتی تھی لیکن 450ھ کے بعد یہ مسجد پھر مسمار و غیر آباد ہو گئی۔ ﴿آجکل یہ مسجد عالیشان عمارت کے ساتھ دوبارہ تعمیر ہوچکی ہے۔ شیعہ مسلمانوں نے اسے بطریق احسن آباد کیا ہوا ہے اور بہت سے زائر وہاں جا کر اعمال بجا لاتے ہیں۔﴾
براثا شہر بغداد کے آباد ہونے سے پہلے ایک گاؤں تھا جس کے بارے میں لوگوں کا گمان ہے کہ خوارج سے جنگ کیلئے نہروان جاتے ہوئے امیر المؤمنینؑ یہاں سے گزرے اور آپ نے اس مسجد میں نماز ادا فرمائی، نیز اس آبادی کے حمام میں آپ نے غسل بھی کیا تھا۔ مقام براثا ابوشعیب براثی سے منسوب ہے جو ایک عابد و زاہد شخص تھے اور وہی پہلے شخص ہیں جو براثا میں ایک جھونپڑی ڈال کر یہاں سکونت پذیر ہوئے اور اپنے وقت آخر تک یہاں عبادت کرتے رہے۔ ایک بہت ہی دولت مند شخص کی بیٹی جو عالیشان محلوں میں پلی بڑھی تھی، وہ اس جھونپڑی کے پاس سے گزری تو اسے ابوشعیب کی یہ حالت و کیفیت بڑی پسند آئی اور ان کی محبت اس کے دل میں جاگزیں ہوئی کہ وہ ان کی محبت کی اسیر ہو کر ان کے قریب آ بیٹھی اور کہنے لگی کہ میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے کہا میں تجھے اس شرط پر قبول کرتا ہوں کہ اپنی اس موجودہ شان و شوکت کو ترک کر دے۔ پس اس نیک بخت خاتون نے اس بات کو منظور کرتے ہوئے عبادت گزاروں کا لباس اختیار کیا۔ تب ابو شعیب نے اس سے نکاح کر لیا۔ جب وہ خاتون جھونپڑی میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ ابو شعیب نے نمی کے اثر سے بچنے کے لیے نیچے ایک چٹائی بچھا رکھی ہے۔ وہ کہنے لگی کہ اگر آپ نے اس چٹائی کو اپنے نیچے سے ہٹا کر باہر نہ پھینکا تو میں آپ کے ساتھ نہیں رہوں گی، کیونکہ میں نے آپ ہی کی زبانی سن رکھا ہے کہ زمین کہتی ہے اے آدم کے بیٹے! تو میرے اور اپنے درمیان پردہ و حجاب ڈالتا ہے، جب کہ کل کو تو میرے ہی پیٹ میں آنے والا ہے۔ پس ابو شعیب نے وہ چٹائی اٹھا کر باہر پھینک دی اور پھر اپنی وفات تک اس نیک دل خاتون کے ساتھ بسر کرتے رہے جب کہ اس عرصے میں وہ دونوں بہترین طریقے سے خدا کی عبادت کرتے رہے، یہاں تک کہ دونوں کی وفات ہو گئی۔
مؤلف کہتے ہیں: ہم نے ہدیۃ الزائرین میں اس مسجد کے فضائل میں بہت سی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ ان اخبار و روایات سے اس مسجد کی ایسی بہت سی فضیلتیں معلوم ہوتی ہیں کہ اگر کسی مسجد میں یہ فضلیتیں پائی جائیں تو وہ اس لائق ہو جاتی ہے کہ انسان دور دراز کی مسافتیں طے کر کے اس مسجد میں نماز و دعا سے فیض یاب ہو۔ اور یہ مسجد براثا درج ذیل بہت سی فضیلتیں رکھتی ہے۔
﴿۱﴾ خدا کی طرف سے یہ مقرر کیا گیا ہے کہ سوائے پیغمبر اور وصئ پیغمبر کے کوئی اور بادشاہ لشکر کے ہمراہ اس سرزمین پر نہیں اترے گا۔
﴿۲﴾ حضرت مریم صدیقہؑ کے گھر کا اس جگہ واقع ہونا۔
﴿۳﴾ یہ حضرت عیسٰیؑ کی سرزمین ہے۔
﴿۴﴾ یہ وہی جگہ ہے جہاں بی بی مریمؑ کیلئے چشمہ ظاہر ہوا۔
﴿۵﴾ اس چشمے کو امیر المؤمنینؑ کا دوبارہ ظاہر کرنا۔
﴿۶﴾ یہاں ایک بابرکت سفید پتھر کا ہونا جس پر حضرت مریمؑ نے حضرت عیسیٰؑ کو لٹایا تھا۔
﴿۷﴾ اسی پتھر کا امیر المؤمنینؑ کے معجزے سے دوبارہ نکالنا آپ کا اسے قبلہ کی سمت نصب کرنا اور اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا۔
﴿۸﴾ امیر المؤمنینؑ اور آپ کے دو فرزندان امام حسنؑ و امام حسینؑ کا اس مسجد میں نماز ادا کرنا۔
﴿۹﴾ اس مقام کی بزرگی و تقدس کے پیش نظر امیر المؤمنینؑ کا یہاں چار دن تک ٹھہرنا۔
﴿۱۰﴾ پیغمبروں کا یہاں نماز ادا کرنا اور خصوصا حضرت ابراہیمؑ کا اس مسجد میں نماز پڑھنا۔
﴿۱۱﴾ یہاں ایک پیغمبر کی قبر کا واقع ہونا اور شاید وہ حضرت یوشعؑ کی قبر ہے کیونکہ شیخ مرحوم کا ارشاد ہے کہ آپ کی قبر کاظمین کے باہر براثا کے سامنے ہے۔
﴿۱۲﴾ اسی مقام پر حضرت امیر المؤمنینؑ کیلئے سورج پلٹا۔
اس مسجد کی اتنی فضیلتوں اور یہاں خدا کی اتنی نشانیوں کے ظہور اور اس مقام پر امیر المؤمنینؑ سے اس قدر معجزوں کے ظاہر ہونے کے باوجود معلوم نہیں کہ ہزاروں زائرین میں سے کوئی ایک اس مسجد میں جاتا ہو، حالانکہ یہ ان کے راستے میں ہے اور وہ آنے جانے میں دو مرتبہ اس مسجد کے پاس سے گزرتے ہیں۔ اگر کوئی زائر اس مسجد سے فیض حاصل کرنے وہاں چلا جائے اور وہاں جا کر دروازہ مسجد کو بند پائے، تو دروازہ کھلوانے کیلئے تھوڑی سی رقم خرچ کرنے سے کتراتا ہے اور خود کو بہت سے فیوض و برکات سے محروم رکھتا ہے، لیکن بغداد اور اس میں واقع ظالموں کی بنائی ہوئی عمارتوں کی سیر کرنے اور نجس و ناپاک لوگوں سے فضول چیزیں خریدنے کو اپنے سفر زیارت کا حصہ تصور کرتا ہے، اور ان کاموں میں بے باکی سے مال خرچ کرتا ہے۔
اللہ ہی نیکیوں کی توفیق دینے والا ہے۔