حضرت زید کی مسجد کے قریب ان کے بھائی صعصعہ بن صوحان کی مسجد بھی ہے اور وہ بھی امیر المؤمنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے کہ مومنین میں بزرگ اور حق امیر المؤمنین علیہ السلام کے عارف سمجھے جاتے تھے۔ وہ اس قدر فصیح و بلیغ تھے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام انہیں خطیب شحشح ﴿وسعت بیان والا مقرر﴾ کہا کرتے تھے اور ان کی خطابت و فصاحت کو بہت سراہا کرتے تھے۔ امیر المؤمنین علیہ السلام نے انہیں کم خرچ اور زیادہ مدد کرنے والے کا لقب دیا۔ جس رات آپؑ نے دنیا سے رحلت فرمائی اور آپ کے فرزند آپ کے جنازے کو کوفہ سے نجف لے جا رہے تھے تو صعصعہ تشییع جنازہ کرنے والوں میں سے تھے۔ جب آنجنابؑ کو دفن کیا جا چکا تو صعصعہ نے حضرتؑ کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر ایک مٹھی خاک لی اور اسے اپنے سر میں ڈالتے ہوئے کہا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام! میرے ماں باپ آپ پر قربان! خدا کی دی ہوئی بڑائیاں آپ کو مبارک ہوں، بے شک آپ کی پیدائش پاکیزہ اور آپ کا صبر عظیم تھا۔ آپ کا جہاد شاندار تھا اور جس چیز کی آرزو کی اسے حاصل کر لیا ہے۔ آپ نے بہت نفع بخش تجارت کی اور اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔ آپ ایسے بہت سے کلمات کہتے اور گریہ کرتے رہے اور وہاں موجود افراد کو رلاتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام کی قبر پر پہلی مجلس رات کے اندھیرے میں برپا ہوئی، جس میں صعصعہ بن صوحان ذاکر تھے اور سامعین میں امام حسنؑ، امام حسینؑ، حضرت محمد بن حنفیہ، حضرت عباسؑ اور مولا علیؑ کے دیگر فرزندان اور آپ کے متعلقین تھے۔ جب مجلس میں بیان کیے جانے والے یہ کلمات اختتام کو پہنچے تو صعصعہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور تمام فرزندوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کو والد گرامی کا پرسہ دیا، ان کی دلجوئی کی اور پھر سب کے سب کوفہ لوٹ آئے۔

مختصر یہ کہ مسجد صعصعہ بن صوحان کوفہ کی محترم مسجدوں میں سے ہے۔ اور ایک گروہ نے ماہ رجب میں اسی مسجد میں امام العصر علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ نے وہاں دو رکعت نماز ادا کی جس کے بعد آپ یہ دعا پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔

اَللّٰھُمَّ یَا ذَالْمِنَنِ السَّابِغَۃِ وَالْاٰلَآءِ الْوَازِعَۃِ..... الخ
1
اے معبود! اے بڑے بڑے احسان کرنے اور گراں تر نعمتیں دینے والے .....
1

امام العصر علیہ السلام کے اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعا اس بابرکت مسجد سے مخصوص اور اس میں انجام دیے جانے والے اعمال میں شامل ہے، جیسا کہ مسجد سہلہ و مسجد زید کی مخصوص دعائیں نقل ہوئی ہیں۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ حضرتؑ کو رجب کے مہینے میں وہاں دیکھا گیا تھا لہٰذا ممکن ہے کہ یہ ماہ رجب کی دعاؤں میں سے ہو۔ چنانچہ بہت سے علماء نے اس دعا کو ماہ رجب کے اعمال میں ذکر کیا ہے اور ہم نے بھی اسے رجب کے اعمال میں نقل کیا ہے، پس خواہشمند مومنین اسے ماہ رجب کی دعاؤں میں ہی ملاحظہ فرمائیں، ہم یہاں تکرار نہیں کرتے۔