دعاؤں اور زیارتوں کی شیعہ کتب جو اس قدر یقینی اور محفوظ تھیں کہ ان کے اکثر مؤلفین اہل علم و فضل تھے، وہ ان کی تطبیق ایسے نسخے سے کیا کرتے تھے جو اہل علم کا جمع کردہ اور علماء کا تصحیح شدہ ہوتا تھا، اگر کہیں تفاوت ہوتا تو حاشیے میں اس کی طرف اشارہ کر دیتے جیسا کہ دعائے مکارم الاخلاق میں حاشیے پر وضاحت کر دیتے ہیں کہ جملہ وبلغ بایمانی ابن اشناس کے نسخے میں وابلغ بایمانی کی صورت میں ہے اور ابن شاذان کی روایت میں اس کی بجائے اَللّٰھُمَّ ابْلغ ایمانی آیا ہے۔ یا فلاں لفظ ابن سکون کے قلم سے یوں لکھا گیا ہے اور شہید نے اسے یوں تحریر کیا ہے اور اسی طرح دیگر مقامات پر بھی وضاحت کی گئی ہے۔
لیکن اب حال یہ ہو گیا ہے کہ سب معتبر کتابیں ترک کر کے محض مفتاح الجنان پر انحصار کر لیا گیا ہے جس کا مختصر ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ اب یہ کتاب خواص و عوام اور عرب و عجم کی نگاہوں کا مرکز بن چکی ہے۔ اس کا سبب کتب اخبار و حدیث سے علماء کی بے توجہی، تعلیمات اہل بیتؑ اطہار کے حامل علماء و فقہاء کی کتب سے عدم التفات، اور ایسی بدعتوں اور اضافوں کی راہ نہ روکنے، دعائیں گھڑنے والوں کی آمیزش اور جاہل افراد کی تحریف کو عیاں نہ کرنے، نا اہل اور بے عقل لوگوں کو تصرفات سے باز نہ رکھنے سے معاملہ یہاں تک آ پہنچا ہے کہ دعائیں اپنے رجحان کے موافق جمع کی گئی ہیں۔ نیز زیارات مفجعات اور صلوات اختراع کی گئی ہیں۔ چنانچہ ایسی دعائیں جن میں اضافے کیے گئے ہیں ان پر مشتمل بہت سے مجموعے طبع ہو گئے ہیں جو گویا کتاب مفتاح الجنان کے بچے ہیں۔
پھر آہستہ آہستہ وضع و تحریف کی یہ روش دیگر عناوین کی کتب میں بھی سرایت کر چکی ہے اور اب اس کا رواج عام ہو گیا ہے۔ جیسا کہ احقر مؤلف کی کتاب منتہی الآمال کی اشاعت جدید میں بعض کاتب حضرات نے اپنے سلیقہ و مذاق کے مطابق اس میں تصرفات کیے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مالک ابن یسر ملعون کے حالات میں لکھا ہے کہ امام حسینؑ کی دعا سے اس کے دونوں ہاتھ شل ہو گئے تھے، الحمد للہ، جو گرمیوں میں دو سوکھی لکڑیوں کی مانند ہو جاتے ہیں، الحمدللہ سردی کے دنوں میں ان سے خون ٹپکتا رہتا تھا، الحمد للہ اور وہ اسی بدترین حال میں رہا، الحمد للہ۔ پس ان دو سطروں میں کاتب نے اپنی پسند کے مطابق عبارت میں چار جگہوں پر جملہ الحمد للہ کا اضافہ کیا ہے۔ نیز بعض مقامات پر جناب زینبؑ یا ام کلثومؑ کے ناموں کے آگے اپنی چاہت کے موافق لفظ خانم لکھ دیا ہے، تاکہ زینب خانم اور ام کلثوم خانم کہا جائے تاکہ اس سے ان مخدرات کا احترام ظاہر ہو۔ پھرحمید ابن قحطبہ کو چونکہ وہ دشمن تصور کرتا تھا، لہذا اس کی برائی کے پیش نظر اسے حمید ابن قحبہ لکھا لیکن احتیاط کرتے ہوئے قحطبہ کو بھی نسخۂ بدل کے طور پر لکھ دیا ہے۔ عبد ربہ کا نام دیکھ کر کاتب کو خیال ہوا کہ یہاں عبد اللہ لکھا جانا چاہیے۔ اور زحر ابن قیس کا نام جو کہ حائے مہملہ سے ہے اس کو ہر جگہ جیم کے ساتھ زجر ابن قیس لکھ دیا ہے۔ اسی طرح ام سلمہ کی ترکیب کو غلط تصور کرتے ہوئے جہاں تک ہو سکا اس کا نام ام السلمہ کی صورت میں لکھا ہے، اور اسی طرح کئی مقامات پر تصرف کیا ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنے میں میری غرض دو چیزیں تھیں۔ ایک یہ کہ اس شخص نے یہ جو تصرفات کیے ہیں اپنی من پسندی اور فہم کے مطابق، تو اس نے اسے کمال سمجھا اور دوسری صورت کو نقص تصور کیا جب کہ جس چیز کو اس نے کمال جانا وہی باعث نقص ہو گئی ہے۔ پس اس پر قیاس کریں کہ ہم جہالت کے باعث دعاؤں میں جن چیزوں کا اضافہ کرتے ہیں، یا اپنے ناقص خیال سے ان میں بعض تصرفات کرتے ہیں اور اسے کمال تصور کہتے ہیں، تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہی چیزیں اہل علم و فن کے نزدیک وجۂ نقص اور اس کی دعا یا زیارت کی بے اعتباری کا سبب بن جاتی ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم اس معاملے میں دخل نہ دیں، اور جو دستور العمل ہمیں دیا گیا ہے اس پر عمل کریں اور اس سے آگے قدم نہ بڑھائیں۔ دوسری غرض یہ تھی کہ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ وہ کتاب جس کا مؤلف زندہ اور اس کا نگہبان ہے اور اس کتاب کی یہ حالت بنائی گئی ہے، تو پھر ان کتابوں کی کیا حالت ہوئی ہو گی جن کے مؤلف گزر چکے ہیں۔ نیز جو کتابیں چھپ چکی ہیں ان پر کیونکر اعتبار کیا جا سکتا ہے سوائے اس کتاب کے جو معروف علماء کے مصنفات میں سے ہو اور اس فن کے علماء میں سے کسی ثقہ عالم کی نظر سے گزر چکی ہو اور انہوں نے اس کی توثیق فرمائی ہو۔
ایک قدیم عالم ثقۂ جلیل یونس بن عبدالرحمان کے حالات میں روایت ہوئی ہے کہ انہوں نے شب و روز کے اعمال میں ایک کتاب مرتب کی تو جناب ابوہاشم جعفری نے یہ کتاب امام حسن عسکریؑ کے حضور پیش کی۔ پس حضرت نے پوری کتاب کا بہ غور مطالعہ کیا اور فرمایا ھذا دینی و دین ابائی كلہ و ھو الحق كلہ (یہ سب میرا دین، میرے آباء کا دین اور سب کا سب درست ہے)۔ آپ دیکھیں کہ اگرچہ ابو ہاشم جعفری جناب یونس بن عبدالرحمن کی وسیع فقاہت اور ان کی دیانت و منزلت سے آگاہ تھے پھر بھی ان کی کتاب کے تحت عمل کرنا شروع نہیں کیا جب تک وہ کتاب امام کے حضور پیش کر کے اس کی توثیق نہ کرا لی۔
نیز روایت کی گئی ہے کہ بورق شنجانی ہراتی جو سچائی، نیکی اور پرہیز گاری میں معروف تھے وہ سامرہ میں امام حسن عسکریؑ کی خدمت میں آئے اور فضل ابن شاذان نیشاپوری کی کتاب ”یوم ولیلہ“ حضرت کے سامنے پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کتاب کو ملاحظہ فرمائیں، تب آپ نے فرمایا ھذا صحیح ینبغی ان تعمل بہ (یہ کتاب صحیح ہے اور اس پر عمل کیا جانا چاہیے)۔
اگرچہ یہ احقر آج کے دور کے لوگوں کے مذاق سے آشنا تھا کہ یہ ان امور میں کسی تحقیق و توثیق کا اہتمام نہیں کرتے، لیکن اپنی طرف سے حجت تمام کرنے کی خاطر میں نے انتہائی کوشش کی ہے کہ جو زیارتیں اور دعائیں اس کتاب میں شامل ہوں وہ تا حد امکان اصل کتابوں سے نقل کی جائیں، دیگر نسخوں سے ان کا تقابل کیا جائے، اور جہاں تک ہو سکے ان کی تصحیح کروں تاکہ میری ذمہ داری پوری ہو جائے اور اس کے مطابق عمل بجا لانے والے اطمینان کے ساتھ عمل کر سکیں۔ بشرطیکہ کاتب حضرات اس میں تصرف نہ کریں اور پڑھنے والے بھی اپنی خواہش پر اس میں اختراع کرنے سے پرہیز کریں۔
شیخ کلینیؒ نے عبد الرحیم قصیر سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی کہ آپ پر قربان ہو جاؤں میں نے ایک دعا وضع کی ہے! حضرت نے فرمایا مجھے اپنی اختراعوں سے معاف رکھو اور وہ دعا مجھے نہ سناؤ۔ پس حضرت نے اسے یہ اجازت بھی نہ دی کہ وہ اپنی بنائی ہوئی دعا سنائے بلکہ آپ نے اس کو اپنی طرف سے دستور عمل تعلیم فرمایا۔
شیخ صدوق نے عبد اللہ ابن سنان سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ وہ وقت قریب ہے جب تم شبہ کا شکار ہو جاؤ گے اور رہبر و پیشوا کے بغیر سرگرداں ہو جاؤ گے، اس شبہ کے دور میں کوئی شخص نجات نہ پائے گا مگر وہ شخص جو دعائے غریق پڑھے۔ میں نے عرض کی دعائے غریق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تم یہ کہو:
میں نے کہہ دیا:
حضرت نے فرمایا یہ درست ہے کہ خدائے تعالیٰ دلوں اور آنکھوں کو پلٹا دینے والا ہے لیکن تم اسی طرح کہو جیسے میں نے کہا ہے:
ان دونوں حدیثوں پر غور و فکر کرنا ان افراد کے لیے کافی ہے جو اپنی پسند کے مطابق دعاؤں اور زیارتوں میں بعض الفاظ کا اضافہ کر کے تصرف کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وَﷲُ الْعَاصِمُ (اور خدا ہی بچانے والا ہے)