یہ بڑی عظمت والا دن ہے اور اس میں چند ایک اعمال ہیں:
روزہ رکھنا روایت ہے کہ حضرت نوحؑ اسی دن کشتی پر سوار ہوئے اور آپؑ نے اپنے ساتھیوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا پس جو شخص اس دن کا روزہ رکھے تو جہنم کی آگ اس سے ایک سال کی مسافت پر رہے گی۔
اس روز غسل کرے۔
حضرت امام حسینؑ کی زیارت کرے جیسا کہ شیخ نے بشیر دھان سے اور انہوں نے امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے فرمایا: پہلی رجب کے دن امام حسینؑ کی زیارت کرنے والے کو خدائے تعالیٰ یقیناً بخش دے گا۔
وہ طویل دعا پڑھے جو سید نے کتاب اقبال میں نقل کی ہے۔
نماز حضرت سلمان پڑھے جو دس رکعت ہے۔ دو دو رکعت کر کے پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ حمد کے بعد تین مرتبہ سورۂ توحید اور تین مرتبہ سورۂ کافرون کی تلاوت کرے۔ نماز کا سلام دینے کے بعد ہاتھوں کو بلند کر کے کہے:
پھر کہے:
اس کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیر لے ۔ پندرہ رجب کے دن بھی یہی نماز بجا لائے، لیکن اس دعا کے بدلے میں عَلٰی كُلِ شَیٍٔ قَدِیْرٍ کے بعد یہ کہے:
نیز رجب کے آخری دن بھی یہی نماز ادا کرے لیکن عَلٰی كُلِ شَیْءٍ قَدِیْر کے بعد یہ کہے:
پھر اپنے ہاتھوں کو منہ پر پھیرے اور اپنی حاجتیں طلب کرے، اس نماز کے فوائد اور برکات بہت زیادہ ہیں پس اس سے غفلت نہ برتی جائے۔
واضح ہو کہ یکم رجب کے دن میں حضرت سلمان کی ایک اور نماز بھی منقول ہے جو دس رکعت ہے، دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہے۔ اس کی ہر رکعت میں سورۂ حمد کے بعد تین مرتبہ سورۂ توحید پڑھے۔ اس نماز کی بھی بہت ساری فضیلتیں ہیں، جن میں سب سے کم تر فضیلت یہ ہے کہ جو شخص یہ نماز بجا لائے اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ وہ برص، جذام اور نمونیہ سے محفوظ رہے گا، نیز عذاب قبر اور قیامت کی سختیوں سے بچا رہے گا۔ سیدؒ نے بھی اس دن کیلئے چار رکعت نماز نقل کی ہے پس وہ نماز ادا کرنے کی خواہش رکھنے والے ان کی کتاب اقبال کی طرف رجوع کریں۔
ایک قول کے مطابق 57ھ میں اسی روز امام محمد باقرؑ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ لیکن مؤلف کا خیال ہے کہ آپ کی ولادت تین صفر کو ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک قول ہے کہ دو رجب ۲۱۲ ھ میں امام علی نقیؑ کی ولادت اور تین رجب 254 ھ میں آپ کی شہادت سامرہ میں واقع ہوئی۔ نیز ابن عیاش کے بقول دس ﴿10﴾ رجب امام محمد تقیؑ کی ولادت کا دن ہے۔