﴿۷﴾ صاحب مطلع الشمس نے نقل کیا ہے کہ پچیس ذوالحجہ 1006ھ میں شاہ عباس اول مشہد آئے اور دیکھا کہ عبدالمومن خان ازبکی نے حرم مبارک کو لوٹ لیا اور حجرۂ طلا کے سوا وہاں کچھ نہیں چھوڑا۔ شاہ عباس اٹھائیس ذوالحجہ کو ہرات گئے اور اسے فتح کر لیا۔ وہاں کا انتظام مکمل کرنے کے بعد مشہد مقدس آ گئے اور ایک مہینہ وہیں ٹھہرے۔ اس دوران میں صحن مبارک کی مرمت کروائی، خدام حرم کو انعام و اکرام سے نوازا اور عراق چلے گئے۔ پھر 1008ھ کے اواخرمیں شاہ عباس بار دیگر مشہد مقدس گئے اور پورا موسم سرما وہیں گزارا۔ اس عرصے میں آستان قدس کے خادم کی حیثیت سے بہ نفس نفیس تمام خدمات انجام دیتے رہے یہاں تک کہ شمع کی صفائی خود کرتے اور قینچی سے اس کی بتی کاٹ کر درست کرتے تھے۔ چنانچہ شاہ کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے شیخ بہائیؒ نے فی البدیہہ یہ اشعار کہے:

پیوستہ بود ملائک علیین، پروانۂ شمع روضہ خلد آئین

مقراض باحتیاط زن ایخادم، ترسم ببری شہپر جبریل آمین

عالم بالا کے فرشتے ہمیشہ اس جنت جیسے روضہ کی شمع پر مثل پروانوں کے پرواز کرتے ہیں، اے اس آستان کے خدمتگار یہ قینچی ذرا احتیاط سے چلاؤ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں تم جبریل کا پر ہی نہ کاٹ دو۔

شاہ عباس نے نذر مان رکھی تھی کہ وہ پاپیادہ مشہد مقدس جا کر امام علی رضاؑ کی زیارت کریں گے۔ چنانچہ اپنی اس نذر کو پورا کرنے کے لیے 1009ھ میں پیدل یہاں آئے اور یہ سفر اٹھائیس دنوں میں طے کیا۔ اس موقع کی مناسبت سے صاحب تاریخ عالم آرا نے یہ اشعار کہے:

غلام شاہ مردان شاہ عباس، شہ والا گہر خاقان امجد

بطوف مرقد شاہ خراسان، پیادہ رفت باخلاص بے حد

پیادہ رفت شد تاریخ رفتن، زاصفاہان پیادہ تا بمشہد 1009

شاہ مرداں علیؑ مرتضیٰ کا غلام شاہ عباس کہ جو نیک خصلت شہنشاہ ہے۔ وہ شاہ خراسان امام علی رضاؑ کے روضہ پر حاضری دینے کے لیے خلوص و محبت کے ساتھ پیدل چل کر گیا۔ شاہ عباس کے پا پیادہ جانے کی تاریخ یہ ہے کہ وہ اصفہان سے مشہد تک پیدل چلا، یہ 1009ھ کا واقعہ ہے۔

چنانچہ 1009ھ میں جب شاہ عباس مشہد مقدس آئے تو انہوں نے صحن مبارک کو کشادہ کیا اور ایوان علی شیر کو درمیان میں رکھا کہ جو پہلے روضۂ پاک کے ایک طرف صحن میں واقع تھا اور کچھ بھلا نہ لگتا تھا۔ جو ایوان اس کے سامنے تھا اسے دوسری طرف بنوایا۔ ایک سڑک شہر کے مغربی دروازے سے مشرقی دروازے تک بنائی جو ہر طرف سے صحن مبارک تک جاتی تھی۔ شہر مشہد کے لیے نہریں اور چشمے بنائے۔ ایک نہر اس سڑک کے وسط سے نکالی جو صحن مبارک سے گزرتی ہوئی باہر چلی جاتی تھی۔ صحن کے درمیان میں ایک حوض بنوایا کہ پانی اس میں سے گزر کر مشرق میں سڑک کی طرف نکل جاتا ہے۔ پھر ہر نئی تعمیر پر کتبے لگوائے جو میرزا محمد رضائی صدر الکتاب، علی رضا عباسی اور محمد رضا امامی کے خط میں ہیں۔ شاہ عباس نے ہی امام علی رضاؑ کا قبہ سونے کی اینٹوں سے بنوایا اور اس کے لیے جو کتبہ لکھا گیا ہے اس کا مضمون یہ ہے:

اس خدا کے نام سے جو رحمٰن و رحیم ہے۔ خدا کی عظیم توفیقات سے ہے کہ اس نے توفیق دی کہ بادشاہ اعظم، عرب و عجم کے بادشاہوں کے آقا، پاکیزہ نسبت والے، روشن علوی حسب والے، حرم مطہر کے خادموں کے قدموں کی خاک، اس روضۂ منورہ کے زائرین کی جوتیوں کا غبار، اپنے معصوم اجداد کے آثار کے مروج، بادشاہ ابن بادشاہ، ابو مظفر شاہ عباس حسین موسوی صفوی بہادر خان اپنے دارالسلطنت اصفہان سے پیدل چلنے کے لئے آمادہ ہوئے اس کی زیارت کے لئے، اور وہ اس قبہ کی زینت کی، اپنے خالص مال کے ساتھ مشرف ہوا اور یہ کام 1010 ھجری میں شروع ہوا اور 1016 ھجری میں مکمل ہوا۔