ایک حسن حدیث میں امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ جب مومن کو قبر میں لٹاتے ہیں تو اسے آواز آتی ہے کہ سب سے پہلی عطا جو ہم نے تم پر کی ہے وہ بہشت ہے اور جو لوگ تیرے جنازے کے ساتھ آئے ہیں ان پر ہم نے سب سے پہلی عطا یہ کی ہے کہ ان کے گناہ معاف کر دیئے ہیں۔ ایک اور حدیث میں آپؑ فرماتے ہیں کہ مومن کو قبر میں جو سب سے پہلا تحفہ دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ آنے والے تمام لوگوں کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں جو شخص کس مومن کے جنازے کے ہمراہ جاتا اور اس کے دفن تک وہاں رہتا ہے تو خداوند تعالیٰ قیامت کے دن ستر ملائکہ کو حکم دے گا کہ وہ قبر سے اٹھائے جانے سے حساب کے موقع تک اس کے ساتھ رہ کر اس کے لیے استغفار کرتے رہیں۔ نیز فرماتے ہیں جو شخص جنازے کے ایک کونے کو کندھا دے گا تو اس کے پچیس کبیرہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے، اور جو شخص (بہ ترتیب) چاروں کونوں کو کندھا دے گا تو وہ گناہوں سے بری ہو جائے گا۔
جنازے کو چار افراد اٹھائیں اور جو شخص جنازے کے ساتھ ہو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ سب سے پہلے میت کے داہنے ہاتھ کی طرف آئے جو جنازے کا بایاں پہلو ہے وہاں اپنا دایاں کندھا دے۔ پھر میت کے دائیں پاؤں کی طرف آ کر کندھا دے۔ اس کے بعد میت کے بائیں ہاتھ کی طرف آئے جو جنازے کا دایاں پہلو ہے، وہاں بایاں کندھا دے اور میت کے بائیں پاؤں کی طرف آئے اور آکر اس کونے کو بائیں کندھے پر اٹھائے۔ اگر وہ دوسری مرتبہ چاروں اطراف کو کندھا دینا چاہے تو جنازے کے آگے سے پیچھے کی طرف آئے اور مذکورہ طریقے سے اسے کندھا دے۔ اکثر علما اس کے برعکس فرماتے ہیں کہ جنازے کے داہنی طرف سے ابتدا کرے یعنی میت کے دائیں طرف سے کندھا دے۔ لیکن معتبر احادیث کے مطابق پہلا طریقہ اچھا ہے اور اگر دونوں طریقوں سے جنازے کو کندھا دے تو بہت بہتر ہے۔
جنازے کے ساتھ چلنے میں افضل طریقہ یہ ہے کہ جنازے کے پیچھے چلے یا اس کے دائیں بائیں رہے، لیکن جنازے کے آگے ہرگز نہ چلے۔ اکثر حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وہ جنازہ مومن کا ہو تو اس کے آگے چلنا بہتر ہے ورنہ پیچھے چلنا ہی مناسب ہے کیونکہ ملائکہ اس کیلئے عذاب لے کر آگے سے آتے ہیں۔ جنازے کے ساتھ سوار ہوکر چلنا مکروہ ہے۔
اور رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی جنازے کو دیکھے وہ یہ دعا پڑھے:
کوئی فرشتہ آسمان میں نہیں مگر یہ کہ وہ گریہ کرے گا اور پڑھنے والے کے لیے رحمت چاہے گا۔
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ جنازہ اٹھاتے وقت یہ دعا پڑھی جائے:
منقول ہے کہ امام زین العابدینؑ جب کسی جنازے کو دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے:
عورتوں کے لیے جنازے کے ساتھ جانا سنت نہیں ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جنازے کو تیز رفتاری کے ساتھ لے جانا مکروہ ہے اور جو لوگ جنازے کے ساتھ ہوں ان کے لیے ہنسنا اور فضول باتیں کرنا بھی مکروہ ہے۔
علامہ مجلسیؒ حلیۃ المتقین میں لکھتے ہیں حضرت رسولؐ سے منقول ہے کہ جو شخص کسی کی نماز جنازہ پڑھتا ہے اس پر ستر ہزار فرشتے نماز پڑھیں گے اور اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اگر جنازے کے ہمراہ جائے اور اس کی تدفین تک وہاں رہے تو اس کے ہر قدم کے بدلے اسے ایک قیراط ثواب دیا جائے گا اور یہ قیراط کوہ احد کے برابر ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں جو بھی مومن کسی کی نماز جنازہ پڑھے گا تو جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی، بشرطیکہ وہ منافق یا والدین کا نافرمان نہ ہو۔ معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ جب کوئی مومن مرتا ہے اور اس کے جنازے پر آکر چالیس مومن یہ کہتے ہیں: اَللّٰهُمَّ اِنَّا لَا نَعْلَمُ مِنْهُ اِلَّا خَیْرًا وَاَنْتَ اَعْلَمُ بِهٖ مِنَّا یعنی اے معبود! ہم اس کے متعلق سوائے نیکی کے کچھ نہیں جانتے اور تو اسے ہم سے زیادہ جانتا ہے۔ تب خدائے تعالیٰ فرماتا ہے میں نے تمہاری گواہی قبول کر لی اور اس کے گناہ معاف کر دیئے ہیں جن کو تم نہیں جانتے ہو اور میں جانتا ہوں۔
ایک اور معتبر حدیث میں رسولؐ اللہ سے منقول ہے کہ مومن کے مرنے کے بعد وہ پہلی چیز جو اس کے نامۂ اعمال میں لکھتے ہیں وہ وہی ہوتی ہے جو بات لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں اگر نیک بات کہتے ہیں تو نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر بری بات کہتے ہیں تو برائی لکھی جاتی ہے۔
مولف کہتے ہیں شیخ طوسیؒ مصباح المتہجد میں فرماتے ہیں: مستحب ہے کہ جنازے کی تربیع کی جائے یعنی پہلے میت کے دائیں طرف کندھا دیا جائے اس کے بعد دائیں پاؤں کی طرف پھر بائیں پاؤں کی طرف اور بعد میں میت کے بائیں ہاتھ کی طرف سے کندھا دیا جائے گویا جنازے کے چاروں اطراف کو اس طرح کندھا دیا جائے جس طرح چکی کو گھمایا جاتا ہے۔