جاننا چاہیے کہ تمام مسلمان مومنین کے لیے اور خصوصاً حاجیوں کے لیے سید المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ کی زیارت کرنا مستحب مؤکدہ ہے۔ آپ کی زیارت نہ کرنے والا قیامت والے دن آپ پر ظلم کرنے والا شمار ہو گا۔ شیخ شہیدؒ نے فرمایا ہے کہ اگر لوگ حضرت رسولؐ کی زیارت کرنا ترک کر دیں تو پھر آپ کے وارث حقیقی امام معصومؑ پر لازم ہو گا کہ وہ لوگوں کو آپ کی زیارت کے لیے جانے پر مجبور کریں، کیونکہ آپ کی زیارت کو نہ جانا ظلم وجفا ہے جو کہ حرام اور ناجائز ہے۔ شیخ صدوقؒ نے امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ تم میں سے جو بھی شخص حج کرنے جائے تو اسے حج کو حضرت رسولؐ کی زیارت پر تمام کرنا چاہیے، اسی سے حج تمام و کامل ہوتا ہے۔ نیز حصرت امیر المؤمنینؑ سے روایت ہوئی ہے آپ نے فرمایا: اپنے حج کو حضرت رسولؐ کی زیارت کے ساتھ ختم کرو کیونکہ حج کے بعد آنحضرتؐ کی زیارت نہ کرنا ظلم و جور اور خلاف ادب ہے۔ پھر تمہیں حکم دیا گیا ہے کہ ان مقدس ہستیوں کی زیارت کیلئے جاؤ جن کا حقِ زیارت اللہ نے تم پر واجب قرار دیا ہے ان مزارات پر جا کر حق تعالیٰ سے رزق طلب کرو۔

ابوصلت ہروی نے روایت کی ہے کہ میں نے امام علی رضاؑ سے عرض کیا کہ یہ حدیث جو نقل کی جاتی ہے کہ مومنین جنت میں اپنے ٹھکانوں پر ہی اپنے پروردگار کی زیارت کریں گے۔ سائل کا خیال یہ تھا کہ بظاہر یہ حدیث درست نہیں کیونکہ اس سے خدا کا صاحب جسم ہونا لازم آتا ہے۔ لہٰذا اگر اس کا کوئی ایسا مطلب ہے جو توحید کے منافی نہ ہو تو وہ بیان فرمائیں۔ امام رضاؑ نے فرمایا کہ اے ابوصلت! حق تعالیٰ نے حضرت رسولؐ کو اپنی تمام مخلوق حتیٰ سبھی انبیاء اور ملائکہ سے افضل قرار دیا ہے۔ اس نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت ،ان کی بیعت کو اپنی بیعت اور ان کی زیارت کو اپنی زیارت کہا ہے۔ نیز حضرت رسولؐ نے فرمایا کہ جس نے میری زندگی یا میری موت کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے حق تعالیٰ کی زیارت کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا جس نے رسولؐ کی اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی، ایک اور مقام پر فرمایا بے شک جو لوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے۔ لہذا یہاں بھی پروردگار کی زیارت سے حضرت رسولؐ کی زیارت مراد ہے، اور اس حدیث میں خدا کے مجسم ہونے کا مفہوم نہیں پایا جاتا۔ حمیری نے قرب الاسناد میں امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ حضرت رسولؐ نے فرمایا کہ جس نے میری زندگی میں یا میری حیات کے بعد میری زیارت کی تو میں روز قیامت اس کی شفاعت کروں گا۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ عید کا دن تھا اور امام جعفر صادقؑ مدینہ منورہ میں موجود تھے، آپؑ حضرت رسولؐ کی زیارت کو گئے اور آپؐ پر سلام بھیجا۔ پھر فرمایا کہ ہم سبھی شہروں کے باشندوں حتیٰ کہ مکہ والوں پر بھی اس سبب سے فضیلت رکھتے ہیں کہ ہم حضرت رسولؐ کی زیارت کرتے ہیں اور قریب سے ان پر سلام بھیجتے ہیں۔

شیخ طوسیؒ نے تہذیب الاحکام میں یزید بن عبد الملک سے اور اس نے اپنے باپ اور دادا سے روایت کی ہے کہ میں جناب فاطمۃ الزہراؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے سلام کرنے میں پہل فرمائی اور پوچھا کہ کس لیے آئے ہو؟ میں نے گذارش کی کہ ثواب اور برکت کیلئے حاضر ہوا ہوں۔ بی بیؑ نے فرمایا کہ مجھے میرے پدر عالی قدر نے خبر دی ہے ﴿جو باطنی طور پر اب بھی حاضر ہیں﴾ جو شخص مجھ پر یا میرے والد بزرگوار پر تین روز سلام کرے تو حق تعالیٰ اس کے لیے جنت واجب کر دیتا ہے۔ میں نے عرض کی کہ آپؑ کی اور آنحضرتؐ کی زندگی میں؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں زندگی میں اور بعد میں بھی سلام کا یہی اجر ہے۔

علامہ مجلسیؒ کہتے ہیں کہ معتبر سند کے ساتھ عبد اللہ بن عباس سے نقل ہوا ہے کہ حضرت رسولؐ نے فرمایا کہ جو شخص بقیع میں امام حسنؑ کی زیارت کرے، اس کا قدم پل صراط پر ثابت رہے گا جب کہ دوسرے لوگوں کے قدم لغزش کھا رہے ہوں گے۔ مقنعہ میں امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ جو شخص میری زیارت کرے گا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اسے تنگ دستی اور پریشانی لاحق نہیں ہو گی۔ شیخ طوسیؒ نے تہذیب الاحکام میں امام حسن عسکریؑ سے روایت کی ہے کہ جو شخص امام جعفر صادقؑ اور ان کے والد گرامی امام محمد باقرؑ کی زیارت کرے تو اس کو درد چشم نہ ہو گا اور کسی درد و بیماری میں مبتلا ہو کر نہ مرے گا۔ ابن قولویہ نے کتاب کامل میں ہشام بن سالم کے واسطہ سے امام جعفر صادقؑ سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے کہ جس کا مضمون یہ ہے کہ ایک شخص آنجنابؑ کی خدمت میں آیا اور عرض کی آیا آپ کے والد بزرگوار امام محمد باقرؑ کی زیارت کرنا ضروری ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں! اس نے کہا پس ان کے زائر کیلئے کیا ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا اگر وہ ان کی امامت کا معتقد اور ان کی پیروی کرنے والا ہے تو اس کیلئے جنت واجب ہے۔ اس نے عرض کی کہ جو شخص ان کی زیارت نہ کرے اس کا حال کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا کہ قیامت میں اس کو ندامت اور حسرت ہو گی۔ اگرچہ اس بارے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں تاہم ہمارے لیے یہاں ذکر کی جانے والی احادیث کافی ہیں۔