سیف ابن عمیر کہتا ہے کہ میں نے صفوان سے کہا کہ علقمہ ابن محمد نے امام محمد باقرؑ سے یہ دعا ہمارے لیے نقل نہیں کی بلکہ اس نے صرف زیارت عاشورا ہی بیان کی ہے۔ صفوان نے کہا کہ میں اپنے سردار امام جعفر صادقؑ کے ساتھ اس مقام پر آیا تھا تو آپ نے یہی عمل کیا جو ہم نے کیا ہے، یعنی اس طرح زیارت پڑھی اور پھر دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد یہی دعائے وداع پڑھی تھی جیسا کہ ہم نے نماز پڑھی اور وداع کیا ہے۔ صفوان نے مزید کہا کہ امام جعفر صادقؑ نے مجھ سے فرمایا کہ اس زیارت اور دعا کا پڑھنا اپنا شیوہ بنا لو اور اسی طرح زیارت کیا کرو۔ پس ضرور میں ضامن ہوں خدا کی جانب سے ہر اس شخص کے لیے جو اس طرح زیارت کرے اور اسی طرح دور یا نزدیک سے دعا پڑھے تو اس کی زیارت قبول ہو گی، اس کا سلام حضرتؑ تک پہنچے گا اور نا مقبول نہ ہو گا۔ جب بھی وہ خدا سے حاجت طلب کرے گا وہ پوری ہو گی، اور خدائے تعالیٰ اسے مایوسی کے عالم میں واپس نہ پلٹائے گا۔ اے صفوان! میں نے اسی ضمانت کے ساتھ یہ زیارت اپنے والد گرامی امام علی ابن الحسینؑ سے سنی، انہوں نے اسی ضمانت کے ساتھ امام حسینؑ سے، انہوں نے اسی ضمانت کے ساتھ اپنے برادر امام حسنؑ سے، انہوں نے اسی ضمانت کے ساتھ اپنے والد بزرگوار امیر المؤمنینؑ سے، انہوں نے اسی ضمانت کے ساتھ حضرت رسولؐ سے، اور آنحضرتؐ نے اسی ضمانت کے ساتھ جبرائیلؑ سے، اور جبرائیلؑ نے اسی ضمانت کے ساتھ یہ زیارت خداوند عالم سے سنی، کہ یقیناً حق تعالیٰ نے اپنی ذات مقدس کی قسم کھائی ہے کہ جو شخص یہ زیارت پڑھ کر امام حسینؑ کی دور یا نزدیک سے زیارت کرے اور پھر یہی دعا پڑھے تو میں اس کی زیارت قبول کروں گا، اس کی ہر خواہش پوری کروں گا وہ جتنی بھی ہو، اس کا سوال پورا کروں گا اور وہ میری بارگاہ سے مایوس و ناکام نہیں پلٹے گا، بلکہ وہ بہ چشم روشن واپس جائے گا کہ اس کی حاجت پوری ہو چکی ہو گی۔ وہ حصول جنت میں کامیاب اور جہنم سے آزاد ہو چکا ہو گا۔ میں اس کی شفاعت قبول کروں گا سوائے دشمن اہل بیت کے کہ اس حق میں اس کی شفاعت قبول نہ ہو گی۔ خدائے تعالیٰ نے اپنی ذات برحق کی قسم کھائی اور ہمیں اس پر گواہ بنایا ہے کہ جس کی اس کے ملائکہ نے گواہی دی ہے. جبرائیلؑ نے بھی یہ کہا کہ یا رسول اللہؐ ! خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ آپ کو بشارت دوں اور مسرور کروں، نیز اس لیے بھیجا ہے کہ علیؑ و فاطمہؑ و حسنؑ و حسینؑ اور آپ کی اولاد سے دیگر ائمہ معصومینؑ کو بشارت دوں کہ یہ خوشی اور شادمانی تا قیامت قائم رہے۔ لہٰذا آپ کی خوشی علی، فاطمہ، حسن، حسین، اور دیگر ائمہ اور آپ کے شعیوں کی یہ مسرت و شادمانی تا قیامت بحال و قائم رہے۔ اس کے بعد صفوان نے کہا کہ امام جعفر صادقؑ نے مجھ سے فرمایا کہ اے صفوان! جب بھی بارگاہ الٰہی میں تجھے کوئی حاجت در پیش ہوا کرے تو تم جس جگہ پر بھی ہو وہاں یہ زیارت اور یہ دعا پڑھو اور پھر جو حاجت بھی خدا سے طلب کرو گے وہ پوری کی جائے گی اور حق تعالیٰ نے اپنے رسولؐ اللہ سے عطا وبخشش کا جو وعدہ کر رکھا ہے وہ اس کے خلاف نہیں کرے گا۔ والحمد للہ!
مؤلف کہتے ہیں نجم الثاقب میں حاج سید احمد رشتی کے سفر حج کے ذیل میں حضرت صاحب العصرؑ ارواحنا فداہ سے ان کے شرف ملاقات کی حکایت درج ہے جس میں امام العصر﴿ عج﴾ کا یہ فرمان نقل ہوا ہے کہ تم زیارت عاشورا کیوں نہیں پڑھتے، عاشورا، عاشورا، عاشورا۔ اور انشاء اللہ ہم یہ حکایت زیارت جامعہ کبیرہ کے ساتھ نقل کریں گے۔
تاہم ہمارے استاد ثقۃ الاسلام نوریؒ کا ارشاد ہے کہ زیارت عاشورا کے مرتبہ و فضلیت میں اتنا ہی کافی ہے کہ یہ زیارت دیگر زیارتوں کی طرح معصوم کی طرف سے صرف ظاہری املاء و انشاء نہیں، گو کہ ان کے پاک دلوں سے جو بات نکلتی ہے وہ عالم بالاسے آتی ہے، لیکن یہ زیارت احادیث قدسیہ میں سے ہے جو اسی ترتیب سے زیارت و لعنت اور سلام و دعا کے ساتھ ذات احدیت سے جبرائیل امینؑ تک اور ان سے حضرت خاتم النبیینؐ تک پہنچی ہے۔ اس کے تجربہ و آزمائش کے مطابق چالیس روز یا اس سے کم دنوں تک اس کو روزانہ پڑھنا حاجتوں کے پورا ہونے اور مقاصد کے بر آنے اور دفعیۂ دشمن کے لیے بے خطا اور بے نظیر ہے۔
لیکن سب سے بڑا فائدہ جو اس کے متواتر پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے وہ وہی ہے جسے میں نے کتاب دار السلام میں درج کیا ہے، جو مختصراً یوں ہے کہ ثقۂ صالح متقی حاج ملا حسن یزدیؒ جو پارسا افراد میں سے تھے اور نجف اشرف میں عبادت و زیارت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ انہوں نے ثقہ امین حاج محمد علی یزدیؒ سے نقل کیا ہے جو مرد فاضل و صالح تھے اور یزد میں ہمیشہ آخرت کی بھلائی کی خاطر مشغول عبادت رہتے تھے، یزد کے باہر واقع مقبرہ جس میں بہت سے صالحین مدفون ہیں اور اسے مزار کہتے ہیں اس میں راتیں گزارتے تھے۔ ان کا ایک ہمسایہ تھا جو ان کے ساتھ پلا بڑھا تھا اور وہ دونوں ایک ہی استادکی شاگردی میں رہے۔ جب وہ جوان ہوا تو اس نے وصولئ عُشر کا شغل اختیار کیا اور پھر اسی کام میں دنیا سے چل بسا۔ وہ اسی جگہ کے قریب دفن ہوا جہاں یہ مرد صالح راتوں کو عبادت کرتے تھے۔ اس کی مرگ پر ابھی ایک ماہ نہ گزرا تھا کہ اس نیک شخص نے اسے عمدہ لباس اور بہترین حالت میں دیکھا۔ تب وہ اس کے قریب گئے اور اس سے کہا کہ میں تمہارے آغاز و انجام زندگی سے واقف ہوں اور تمہارے ظاہر و باطن کو جانتا ہوں کہ تم ایسے لوگوں میں سے نہ تھے جن کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ ان کا باطن صاف ہے۔ نیز جو پیشہ تم نے اختیار کر رکھا تھا اس کا تقاضا بھی یہ تھا کہ تم عذاب میں پڑے رہو۔ پس وہ کون سا عمل ہے جس کے ذریعے تم اس مرتبے پر پہنچے ہو؟ اس نے کہا کہ معاملہ ایسا ہی تھا جیسے آپ نے فرمایا ہے اور جب سے قبر میں آیا ہوں بڑے ہی سخت عذاب میں رہا ہوں، یہاں تک کہ ہمارے استاد اشرف لوہار کی بیوی یہاں دفن کی گئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی جائے دفن کی طرف اشارہ بھی کیا جو وہاں سے سو گز کے فاصلے پر تھی۔ پھر بتایا کہ دفن کی رات میں امام ابو عبد اللہ الحسینؑ نے تین بار اس خاتون کی خبر گیری فرمائی۔ جب تیسری دفعہ تشریف لائے تو آپ نے حکم فرمایا کہ اس قبرستان پر سے عذاب اٹھا دیا جائے۔ چنانچہ اس وقت سے ہم سبھی اہل قبور کی حالت بہتر ہو گئی اور ہم نعمت و رحمت میں بسر کر رہے ہیں۔ اس پر وہ صالح حیرت زدہ ہو کر بیدار ہوئے جب کہ وہ نہ اس لوہار کو جانتے تھے نہ اس گھر کی جائے وقوع سے واقف تھے۔ پس وہ لوہاروں کے بازار گئے اور جستجو کی تو اس عورت کا خاوند انہیں مل گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری کوئی بیوی تھی اس نے کہا ہاں وہ کل فوت ہو گئی اور اسے فلاں جگہ دفن کیا گیا ہے۔ ان بزرگ نے پوچھا کہ آیا وہ امام حسینؑ کی زیارت کو گئی تھی؟ اس نے کہا نہیں۔ کیا وہ ذکر و مصائب کیا کرتی تھی؟ اس نے کہا نہیں۔ انہوں نے دریافت کیا آیا وہ مجلس عزا برپا کرتی تھی؟ اس نے کہا نہیں۔ تب وہ لوہار کہنے لگا کہ آپ کس بات کی جستجو میں ہیں؟ اب بزرگ نے اسے اپنا خواب سنایا تو وہ کہنے لگا کہ میری بیوی ہمیشہ زیارت عاشورا پڑھا کرتی تھی۔