دوسری جگہ جہاں زائر کو لازماً جانا چاہیے وہ حضرت حذیفہ یمانی کا مزار ہے کہ جو رسولؐ اللہ کے عالی قدر صحابہ میں سے تھے اور وہ امیر المؤمنینؑ کے خاص رفقاء میں سے تھے۔

تمام صحابہ میں جناب حذیفہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ انہیں منافقوں کے نام معلوم تھے اور آپ ان کو پہنچانتے تھے۔ اس لیے جب ان میں سے کوئی ایک مرتا تھا تو آپ اس کے جنازے پر نہیں جاتے تھے اور آپ کی دیکھا دیکھی خلیفۂ ثانی بھی اس کے جنازے میں شریک نہ ہوتے تھے۔ خلیفۂ دوم نے حضرت حذیفہ کو مدائن کا والی مقرر کیا۔ بعد میں انہیں معزول کر کے ان کی جگہ حضرت سلمان فارسی کو والی بنایا اور جب ان کی وفات ہو گئی تو دوبارہ جناب حذیفہ ہی کو والئ مدائن مقرر کر دیا۔ امیر المؤمنینؑ کے ظاہری خلافت پر متمکن ہونے تک آپ اس منصب پر فائز رہے۔ حضرتؑ نے اہل مدائن کو اپنی خلافت سے آگاہ کیا اور حضرت حذیفہ کو اس عہدے پر بحال رکھا۔ جب آپؑ جنگ جمل کیلئے مدینہ سے روانہ ہوئے تو آپ کے لشکر کی مدائن آمد سے قبل حذیفہ کی وفات ہو گئی اور آپ کو اس شہر میں دفن کر دیا گیا۔

ابو حمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ جب حضرت حذیفہ کا وقت آخر آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنے پاس بلایا اور اسے ان اچھی باتوں پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی اور کہا: اے فرزند! ہر اس چیز سے اپنی امید قطع کر لے جو دوسروں کے ہاتھ میں ہے کیونکہ اسی میں تونگری و بے نیازی ہے۔ اپنی حاجات کیلئے لوگوں کے پاس نہ جا کہ یہ فقر و محتاجی ہے۔ ہر دن اس طرح بسر کر کہ تیرا آج کا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہو۔ جب نماز پڑھے تو یہ تصور کر کہ یہ تیری آخری نماز ہے اور کوئی ایسا کام نہ کر جس پر تجھے معافی مانگنا پڑے۔

یہ بھی یاد رہے کہ حضرت سلمانؓ کے حرم کے قریب مدائن کی جامع مسجد ہے جو امام حسن عسکریؑ کی طرف منسوب ہے کہ یہ آپ نے تعمیر کروائی اور اس میں نماز ادا کی تھی۔ پس زائر اس مسجد میں دو رکعت نماز تحیت مسجد بجا لانے کے اجر و ثواب سے محروم نہ رہنے پائے۔