شیخ صدوقؒ نے فقیہ میں روایت کی ہے کہ جب حضرتؑ کی زیارت کرنا چاہے تو غسل کرے، پاکیزہ لباس پہنے اور یہ زیارت پڑھے:

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ ابْنِ عَلِیٍّ
1
اے معبود! محمدؑ بن علیؑ پر رحمت فرما
1
الْاِمَامِ التَّقِیِّ النَّقِیِّ الرَّضِیِّ الْمَرْضِیِّ
2
جو امام ہیں، پرہیزگار، برگزیدہ، پسندیدہ، پسند شدہ
2
وَحُجَّتِكَ عَلٰی مَنْ فَوْقَ الْاَرْضِ وَمَنْ تَحْتَ الثَّرٰی
3
اور تیری حجت ہیں ان سب پر جو زمین کے اوپر اور زمین کے نیچے رہتے ہیں
3
صَلَاۃً كَثِیْرَۃً نَامِیَۃً زَاكِیَۃً مُبَارَكَۃً
4
ایسی رحمت جو بہت زیادہ، بڑھنے والی، پاک تر، برکت والی،
4
مُتَوَاصِلَۃً مُتَرَادِفَۃً مُتَوَاتِرَۃً
5
لگا تار، مسلسل، متواتر ہو
5
كَٲَفْضَلِ مَا صَلَّیْتَ عَلٰی ٲَحَدٍ مِنْ ٲَوْلِیَائِكَ
6
کہ جس طرح بہترین رحمت کی ہے تو نے اپنے اولیاء میں سے کسی ایک پر
6
وَاَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا وَلِیَّ ﷲِ
7
اور آپ پر سلام ہو اے ولئ خدا
7
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا نُوْرَ ﷲِ
8
آپ پر سلام ہو اے نور خدا
8
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا حُجَّۃَ ﷲِ
9
آپ پر سلام ہو اے حجت خدا
9
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا اِمَامَ الْمُؤْمِنِیْنَ
10
سلام ہو آپ پر اے مومنوں کے امام،
10
وَوَارِثَ عِلْمِ النَّبِیِّیْنَ، وَسُلَالَۃَ الْوَصِیِّیْنَ
11
نبیوں کے علوم کے وارث اور اوصیاء کے فرزند
11
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا نُوْرَ ﷲِ فِیْ ظُلُمَاتِ الْاَرْضِ
12
آپ پر سلام ہوکہ آپ زمین کی تاریکیوں میں خدا کا نور ہیں
12
ٲَتَیْتُكَ زَائِرًا، عَارِفًا بِحَقِّكَ
13
میں آیا آپ کی زیارت کرنے، آپ کے حق سے واقف،
13
مُعَادِیًا لِاَعْدَائِكَ، مُوَالِیًا لِاَوْلِیَائِكَ
14
آپ کے دشمنوں کا دشمن، آپ کے دوستوں کا دوست ہوں
14
فَاشْفَعْ لِیْ عِنْدَ رَبِّكَ۔
15
پس اپنے رب کے حضور میری شفاعت کریں۔
15

اس کے بعد اپنی حاجات طلب کرے اور پھر چار رکعت نماز یعنی دو رکعت امام محمد تقیؑ کیلئے اور دو رکعت امام موسیٰ کاظمؑ کیلئے اس گنبد کے نیچے پڑھے جس میں امام محمد تقیؑ کی قبر شریف ہے۔ یاد رہے کہ امام موسیٰ کاظمؑ کے سرہانے کی طرف ہو کر نماز نہ پڑھے کیونکہ ادھر بعض قریش کی قبریں ہیں کہ جن کو قبلہ بنانا درست نہیں ہے۔

مؤلف کہتے ہیں: شیخ صدوقؒ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دور میں امام موسیٰ کاظمؑ کی قبر مبارک امام محمد تقیؑ کی قبر شریف سے علیحدہ بنی ہوئی تھی اور اس کا قبہ الگ تھا اور ان کے دروازے بھی جدا جدا تھے اور زائرین امام موسی کاظمؑ کی قبر اطہر کی زیارت کے بعدباہر تشریف لاتے اور امام محمد تقیؑ کی زیارت گاہ کی طرف جاتے تھے۔ اس وقت وہ جداگانہ مزار مبارک تھی لیکن آج کل ان دونوں ائمہؑ کی قبریں ایک ہی قبہ میں ہیں۔