آداب زیارت بہت زیادہ ہیں مگر یہاں ہم ان میں سے چند ایک کا ذکر کریں گے:
﴿۱﴾ زیارت کے سفر پر روانگی سے پہلے غسل کرے۔
﴿۲﴾ راستے میں بے ہودہ باتوں، لڑائی جھگڑے اور گالی گلوچ سے پرہیز کرے۔
﴿۳﴾ ہر امام کی زیارت پڑھنے سے پیشتر غسل کرے اور ان سے وارد ہونے والی دعاؤں کو پڑھے جن کا ذکر زیارت وارث سے قبل آئے گا۔
﴿۴﴾ حدث اکبر واصغر سے پاک رہے، یعنی وضو وغسل کے ساتھ رہے۔
﴿۵﴾ پاک وصاف اور نیا لباس پہنے۔
﴿۶﴾ جب کسی روضۂ مبارک پر جائے تو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے، اطمینان کے ساتھ خضوع و خشوع کی حالت میں ادھر ادھر دیکھے بغیر آگے بڑھے۔
﴿۷﴾ امام حسینؑ کی زیارت کے علاوہ دیگر زیارتوں کے لیے خوشبو لگا کر جائے۔
﴿۸﴾ حرم مطہر کی طرف جاتے ہوئے ذکر الٰہی، تکبیر و تحمید اور تسبیح و تہلیل اور محمدؐ وآل محمدؑ پر درود وصلوات سے زبان کو معطر کرے۔
﴿۹﴾ حرم مبارک کے دروازے پر کھڑے ہو کر اذن دخول پڑھے اور کوشش کرے کہ اس پر رقت قلب اور خشوع وخضوع طاری ہو جائے۔ خدا کے جلال و عظمت کا تصور کرے اور جس بزرگ ہستی کے در پر حاضر ہوا ہے اس کی بلند و بالا شان کو نظر میں لائے اور یہ باور کرے کہ وہ بزرگوار اس کو دیکھتے ہیں، اس کا کلام سنتے ہیں اور اس کو سلام کا جواب دیتے ہیں۔ اذن دخول جو اس وقت زائر پڑھتا ہے اس سب کی گواہی دیتا ہے اور ان کی محبت و نوازش سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے وہ اپنے شیعوں سے کلام کرتے ہیں۔ زائر کو اپنے حالات پر غور کرنا چاہیے، اپنی خرابیوں اور نافرمانیوں کو یاد کرنا چاہیے جو ان مقدس ہستیوں کے احکام کے بارے میں اس نے کی ہیں، ان اذیتوں کو نگاہ میں لائے جو اس نے ان ہستیوں اور ان کے شیعوں کو پہنچائی ہیں کیونکہ ان کے محبوں کو تکلیف پہنچانا اصل میں خود ان کو تکلیف دینا ہے۔ اگر انسان ان چیزوں پر توجہ کرے تو اس کے قدم آگے بڑھنے کی بجائے رک جائیں گے، اس کا دل خوف زدہ اور آنکھیں روئیں گی اور یہی آداب کی حقیقی روح اور جان ہے۔
نیز بہتر ہے یہ اشعار پڑھے جائیں:
اس مقام پر سخاوی کے یہ اشعار نقل کر دینا بہت مناسب ہو گا۔
علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں عیون المعجزات سے ایک روایت نقل کی ہے: ابراہیم جمّال جو شیعیان علیؑ میں سے تھے، انہوں نے ہارون الرشید عباسی کے وزیر علی بن یقطین سے ملاقات کرنا چاہی۔ چونکہ ابراہیم ایک ساربان تھے اور ان کی ظاہری حالت ایسی نہ تھی کہ ایک وزیر کے دربار میں جائیں، لہٰذا ملازمین نے ان کو علی بن یقطین کے پاس نہ جانے دیا۔ ادھر اسی سال علی بن یقطین حج کو گئے اور بعد میں مدینہ منورہ بھی آئے۔ وہاں انہوں نے اپنے آقا و مولا امام موسیٰ کاظمؑ کی خدمت میں حاضری دینا چاہی تو حضرتؑ نے اس کو ملاقات کی اجازت نہ دی۔ دوسرے روز دروازے پر امام سے اس کی ملاقات ہو گئی۔علی بن یقطین نے عرض کی کہ مولا، مجھ سے کیا خطا ہوئی کہ آپ نے مجھے اپنے حضور آنے کی اجازت نہیں دی؟ آپؑ نے فرمایا، تمہیں ملاقات کی اجازت نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ تم نے اپنے ایک مومن بھائی ابراہیم جمال کو اپنے پاس نہیں آنے دیا تھا۔ پس حق تعالیٰ تمہاری اس سعی و کوشش کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے جب تک کہ ابراہیم ساربان تمہیں معاف نہ کر دے۔ اس پر علی بن یقطین نے عرض کیا کہ مولا، میں اس وقت مدینے میں ہوں اور ابراہیم جمال کوفہ میں ہے تو میں اس سے کیسے مل سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا کہ آج رات اپنے غلام اور اپنے ساتھیوں کو بتائے بغیر تنہا بقیع میں چلے جانا، وہاں تمہیں پالان کسا ہوا ایک اونٹ نظر آئے گا، تم اس اونٹ پر سوار ہو کر کوفہ چلے جانا۔ علی بن یقطین رات کو تنہا بقیع گئے اور وہاں ویسا ہی اونٹ دیکھا تو وہ اس پر سوار ہو گئے اور تھوڑی ہی دیر میں کوفہ پہنچ گئے۔ اور انہوں نے ابراہیم جمال کے دروازے پر اونٹ کو بٹھایا اور پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابراہیم نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہا میں علی بن یقطین ہوں۔ ابراہیم بولے کہ علی بن یقطین کا میرے دروازے پر کیا کام ؟انہوں نے کہا مجھے تم سے انتہائی اہم کام ہے۔ پھر اسے قسم دی کہ دروازہ کھولے اور اندر آنے دے۔ جب اندر گئے تو کہنے لگے اے ابراہیم! میرے مولاؑ نے مجھے بتایا ہے کہ میرا کوئی عمل قبول نہ ہو گا جب تک ابراہیم جمال تجھ سے راضی نہ ہو جائے۔ ابراہیمؑ نے کہا خدا آپ کو معاف کرے، یعنی میں نے آپ کو معاف کر دیا۔ لیکن علی بن یقطین نے اس پر بس نہ کی، بلکہ اپنا چہرہ خاک پر رکھ دیا اور ابراہیمؑ کو قسم دے کر کہا کہ تم اپنا پاؤں میرے چہرے پر رکھ کر خوب روند ڈالو۔ ابراہیم نے بامر مجبوری ایسا ہی کیا۔ تب علی بن یقطین نے کہا اے خدا تو گواہ رہنا۔ اور علی بن یقطین اسی اونٹ پر سوار ہوئے اور اسی رات مدینہ واپس آ پہنچے اور اونٹ کو امام موسیٰ کاظمؑ کے دروازے پر بٹھایا۔ اسی وقت آپؑ نے ان کو اندر آنے کی اجازت دی اور پھر حضرتؑ نے وہ چیزیں قبول فرمایئں جو علی بن یقطین آپ کی نذر کرنا چاہتے تھے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن بھائیوں کے حقوق کی پاسداری کس قدر لازم اور اہم ہے۔
﴿۱۰﴾ روضۂ مبارک کی چوکھٹ پر بوسہ دے۔ اور شیخ شہیدؒ کا ارشاد ہے کہ زائر اگر چوکھٹ پر خدا کے حضور سجدہ شکر بجا لائے اور یہ نیت کرے کہ میں خداکے لئے سجدہ بجا لا رہا ہوں کیونکہ اس نے اسے اس مقدس مقام تک پہنچنے کی توفیق دی ہے تو اس کا یہ عمل صحیح ہے۔
﴿۱۱﴾ حرم میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں اندر رکھے اور باہر آتے ہوئے پہلے بایاں پاؤں باہر نکالے، جیسا کہ مسجد کا حکم ہے۔
﴿۱۲﴾ ضریح کے اتنا قریب ہو جائے کہ اس سے لپٹ سکے۔ یہ گمان کرنا باطل ہے کہ ضریح سے دور کھڑے ہونے میں پاس ادب ہے کیونکہ اسے بوسہ دینے اور اس کا سہارا لینے کا تذکرہ آیا ہے۔
﴿۱۳﴾ زیارت پڑھتے وقت پشت بہ قبلہ ہو کر اپنا منہ ضریح کی طرف کیے رہے۔ بظاہر یہ ادب صرف معصومؑ کے روضۂ مبارک کی زیارت کے لیے مخصوص ہے۔ جب زیارت پڑھ چکے تو اپنے چہرے کے دائیں حصے کو ضریح مبارک کے ساتھ مس کر کے گریہ و زاری کرتے ہوئے خدائے تعالیٰ سے دعا مانگے، پھر بائیں حصے کو مس کرے اور صاحب قبر کا واسط دے کے دعا مانگے کہ حق تعالیٰ قیامت میں اس معصومؑ کو اس کاشفیع بنائے۔ دعا کرنے میں ہمت وحوصلے سے کام لے اور پوری توجہ کے ساتھ خاصی دیر تک مصروف دعا رہے، اس کے بعد ضریح مبارک کے سرہانے قبلہ رو ہو کر دعا کرے۔
﴿۱۴﴾ اگر کھڑے ہو کر زیارت پڑھنے میں کوئی عذر ہو جیسے کمر درد، پاؤں کا درد یا کمزوری لاحق ہو تو بیٹھ کر پڑھے۔
﴿۱۵﴾ جب روضۂ مقدس کو دیکھے تو زیارت پڑھنے سے پہلے تکبیر یعنی ﷲ اكبر کہے۔ کیونکہ روایت میں ہے کہ جو شخص امام کے حضور تکبیر کہے اور لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ وَحْدَہٗ، لَا شَرِیْكَ لَہٗ پڑھے تو اس کیلئے رضوان اکبر لکھا جائے گا۔
﴿۱۶﴾ وہ زیارتیں پڑھے جو ائمہ سے مروی ہیں۔ اپنی یا کسی اور کی بنائی ہوئی زیارتیں پڑھنے سے پرہیز کرے کہ جو بے خبر لوگوں نے اصل زیارتوں کی خوشہ چینی کر کے مرتب کیں اور بے خبر لوگوں کو انہی کے پڑھنے میں لگائے رکھتے ہیں ۔ شیخ کلینیؒ نے عبد الرحیم قصیر سے روایت کی ہے کہ میں امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے آقا ! میں نے اپنی طرف سے ایک دعا ترتیب دی ہوئی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ مجھے اپنی خود ساختہ دعا سے معاف رکھو۔ یعنی یہ بے کار ہے، جب تمہیں کوئی حاجت پیش آئے تو رسولؐ اللہ کے وسیلے سے خدا کی پناہ مانگو اور دو رکعت نماز پڑھ کے آنحضرت کیلئے ہدیہ کر دو۔
﴿۱۷﴾ زیارت پڑھنے کے بعد نماز زیارت ادا کرے کہ جو کم سے کم دو رکعت ہوتی ہے۔ شیخ شہیدؒ نے فرمایا ہے کہ اگر رسولؐ اکرم کی زیارت کرے تو پھر نماز زیارت آنحضرتؐ کے روضۂ مبارک میں بجا لائے، اور اگر ائمہ طاہرین میں سے کسی کی زیارت کرے تو پھر نماز زیارت ان کے سرہانے کی طرف ہو کر پڑھے۔اس دو رکعت نماز کو مسجد میں ادا کرنا بھی جائز ہے۔ علامہ مجلسیؒ نے فرمایا ہے کہ میرے خیال میں نماز زیارت اور دوسری نمازیں ضریحوں کے بالائے سر ادا کرنا بہتر ہے اور علامہ بحر العلوم نے بھی کتاب درّہ میں یہی نظم فرمایا ہے:
﴿۱۸﴾ اگر کسی موقع پر نماز زیارت کی خاص کیفیت کا ذکر نہ ہو تو وہاں نماز زیارت کی دو رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورۂ یاسین اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورۂ رحمٰن پڑھے، اور پھر وہ دعا پڑھے جو زیارت کے بعد پڑھی جاتی ہے، یا اپنی دنیا و آخرت کے لیے جو کچھ بھی چاہتا ہو اس کا سوال کرے۔ بہتر یہ ہے کہ عام مومنین کے حق میں دعا کرے کہ اس کی قبولیت یقینی ہے۔
﴿۱۹﴾ شیخ شہیدؒ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص حرم میں داخل ہو اور وہاں نماز باجماعت پڑھی جا رہی ہو تو پہلے اس میں شریک ہو کر فریضہ نماز بجا لائے اور بعد میں زیارت کرے۔ اسی طرح نماز جماعت میں شرکت کی خاطر زیارت پڑھنے کو بھی ترک کر دے اور نماز سے فراغ ہو کر زیارت پڑھے۔ اگر وہ زیارت پڑھ رہا ہو اور نماز کا وقت داخل ہو جائے تو بھی اسے چھوڑ کر نماز جماعت میں شامل ہو کیونکہ نماز جماعت کے لیے زیارت کو ترک کر دینا مستحب ہے۔ حرم کے متولی پر لازم ہے کہ ایسے وقت میں لوگوں کو نماز جماعت میں شمولیت کا حکم دے۔
﴿۲۰﴾ شیخ شہیدؒ نے ضریح مقدس کے نزدیک تلاوت قرآن کو بھی آداب زیارت میں ذکر فرمایا ہے اور یہ کہ اس تلاوت کو اس روح پاک کے لیے ہدیہ کرے کہ جس کی زیارت کر رہا ہے، اس عمل میں زائر کا نفع اور صاحب مزار کی تعظیم ہے۔
﴿۲۱﴾ زائر کو نازیبا باتوں اور بیہودہ گفتگو سے بچنا چاہیے کہ یہ چیزیں عام حالات میں بھی ناپسندیدہ، رزق میں مانع اور دل کی سختی کا سبب ہیں۔ خاص طور پر ان پاکیزہ روضوں میں کہ اللہ نے ان بزرگواروں کی عظمت و بلندی سورۂ نور میں بیان فرمائی کہ فی بیوت اذن ﷲ ان ترفع ..... الٰی آخر
﴿۲۲﴾ زیارت پڑھتے ہوئے اپنی آواز بلند نہ کرے، جیسا کہ میں نے اسے ہدیہ الزائرین میں ذکر کیا ہے۔
﴿۲۳﴾ جس مقام پر کسی امامؑ کی زیارت کو گیا ہو ،وہاں سے کسی دوسرے شہر یا اپنے وطن کو جانا چاہے تو روضۂ امام پر جا کر ان کو الوداع کہے اور زیارت وداع پڑھے کہ جو نقل ہوئی ہے۔
﴿۲۴﴾ اپنے گناہوں پر استغفار کرے اور زیارت سے واپس آنے کے بعد اپنے اخلاق و اعمال کو سنوارے کہ زیارت سے قبل و بعد کا فرق نمایاں رہے۔
﴿۲۵﴾ اپنی حیثیت کے مطابق خدام حرم کی مالی خدمت کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ضروری ہے کہ ان آستانوں کے خدام شریف، نیک، دیندار اور خوش اخلاق ہوں، اگر زائروں کی طرف سے کوئی نامناسب بات ہو جائے تو وہ ان پر غصہ و ناراضگی کا اظہار نہ کریں، بلکہ ان میں جو غریب ہوں ان کی رہنمائی سے پہلوتہی نہ کریں اور انہیں زیارت کے آداب اور اعمال سے آگاہ کریں۔ خادموں کو حقیقی معنی میں خادم ہونا چاہیے اور صفائی، نگرانی اور زائرین کی حفاظت جیسی لازمی خدمات میں مشغول رہنا چاہیے۔
﴿۲۶﴾ روضۂ مطہر کے قرب میں جو محتاج و مسکین افراد خصوصاً سادات، علماء اور طلباء کہ جن کے دم قدم سے یہ آستانے آباد ہیں، ان سب پردیسی لوگوں کو اپنی واجب شرعی رقوم میں سے مناسب حصہ دے۔
﴿۲۷﴾ شیخ شہیدؒ نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے کے بعد وہاں سے روانگی میں جلدی کرے اور دوبارہ یہاں آنے کا اشتیاق دل میں لے کر جائے۔ زیارت کرنے میں مرد اور عورتیں ایک دوسرے سے علیحدہ رہیں۔ تاہم عورتیں اگر رات کو زیارت کریں تو یہ بہت بہتر ہے، نیز انہیں عمدہ لباس پہن کر حرم میں نہیں جانا چاہیے تاکہ وہاں موجود لوگ ان کو پہچان نہ سکیں۔ وہ پوشیدہ طور پر حرم سے باہر آئیں کہ کوئی ان پر نظریں نہ جمائے۔ اگرچہ عورتوں کا مردوں کے ساتھ زیارت کرنا ایک جائز امر ہے لیکن یہ پسندیدہ طریقہ نہیں ہے۔ مؤلف کہتے ہیں کہ مذکورہ باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں یہ بدتر طریقہ رواج پا گیا ہے کہ عورتیں بن سنور کر اور نفیس لباس پہن کر زیارت کے لیے گھروں سے نکلتی ہیں اور حرم مقدسہ میں مردوں کے ساتھ مخلوط ہو کر زیارت کرتی ہیں۔ کئی مواقع پر وہ مردوں کے آگے آ بیٹھتی ہیں اور ان کی عبادت میں خلل پیدا کرتی ہیں، ان کے تضرع و زاری اور گریہ و نالہ میں مانع ہوتی ہیں۔ اس طرح وہ ان لوگوں میں داخل ہو جاتی ہیں جو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ ان عورتوں کا یہ فعل بہت برا اور ناپسندیدہ ہے۔ حقیقیت یہ ہے کہ ان کا اس ڈھب سے زیارت کرنا شرعی لحاظ سے چنداں مناسب نہیں اور نہ ہی یہ کار ثواب کے زمرے میں آتا ہے، لہٰذا عورتوں کو اس بارے میں خاص احتیاط کرنا چاہیے کہ اجر کی بجائے زجر اور ثواب کی بجائے عذاب لے کر نہ جائیں۔
امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ امیر المؤمنینؑ عراق کے لوگوں سے فرماتے تھے، اے اہل عراق! مجھے بتایا گیا ہے کہ تمہاری عورتیں سرِ راہ مردوں سے ملتی اور گفتگو کرتی ہیں۔ آیا ان کی اس روش پر تمہیں شرم نہیں آتی؟ خدا اس شخص پر لعنت کرتا ہے جس کو غیرت نہ آتی ہو۔ من لا یحضرہ الفقیہ میں اصبغ بن نباتہ سے روایت کی گئی ہے کہ میں نے امیر المؤمنینؑ کو یہ فرماتے سنا کہ قرب قیامت کا زمانہ جو سب زمانوں سے بدتر ہو گا، اس میں عورتیں بے پردہ، دین سے ناواقف، فتنہ انگیز، خواہشوں کی دلدادہ، لذتوں کی طرف مائل اور حرام چیزوں کو حلال سمجھنے والی ہوں گی۔ پس وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گی۔
﴿۲۸﴾ جب زائرین کی تعداد زیادہ ہو تو جو لوگ ضریح کے پاس پہنچے ہوئے ہوں انہیں جلد تر زیارت سے فارغ ہو جانا چاہیے تاکہ دوسرے لوگ ضریح مقدس کی زیارت کا ثواب حاصل کر سکیں۔
البتہ امام حسینؑ کی زیارت کے ذیل میں کچھ اور آداب بھی بتائے جائیں گے کہ جو زائر کو بجا لانا چاہئیں۔