یہ مقدمہ سفر کے آداب سے متعلق ہے۔

سفر سے پہلے

سفر شروع کرنے سے پہلے بدھ، جمعرات اور جمعہ کو روزہ رکھے اور ہفتہ، منگل یا جمعرات کو سفر پر نکلے۔ سوموار اور بدھ کو سفر نہ کرے، نیز جمعہ کے دن بھی ظہر سے پہلے سفر پر نہ جائے ۔اس کے علاوہ ہر ماہ ان تاریخوں میں سفر نہ کرے جو درج ذیل اشعار میں ذکر ہیں:

ھفت روزی نحس باشد در مھی

زاں حذرکن تانیابی ھیچ رنج!

سہ وپنج وسیزدہ باشانزدہ

بیست ویک بیست وچھار بیست وپنج

ہر مہینے کی سات تاریخیں، تین، پانچ، تیرہ، سولہ، اکیس، چوبیس اور پچیس سفر کیلئے نحس ہیں ان میں سفر نہ کریں تاکہ سفر کی وجہ سے کسی مصبیت کا شکار نہ ہوں۔ اسی طرح ہر مہینے کے آخری دن جن میں چاند ڈوبا رہتا ہے اور جب قمر در عقرب ہوتا ہے ان دنوں میں بھی سفر نہ کریں۔ان ایام میں سفر کرنا نامناسب اور ممنوع ہے۔ البتہ اگر ان دنوں میں کسی اشد ضرورت کے تحت سفر کرنا پڑے تو سفر کی دعائیں پڑھیں اور صدقہ دے کر سفر کریں تو انشاء اللہ کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو گی۔

روایت میں ہے کہ امام محمدباقرؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے سفر کا قصد کیا اور الوداع کرنے کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ میرے والد ماجد امام زین العابدینؑ جب اپنی کسی املاک وجائیداد کی طرف جانے کی خاطر سفر کا قصد کرتے تو آسان تر خیر و نیکی کے بدلے میں خدا سے اپنی سلامتی خرید لیتے، یعنی جتنا ہو سکے صدقہ دے دیتے تھے۔ یہ صدقہ آپ اس وقت دیتے جب اپنا پاؤں رکاب میں رکھ لیتے۔ اور جب سفر سے سلامتی کے ساتھ واپس آتے تو اللہ کا شکر ادا کرتے اور پھر جتنا ممکن ہوتا صدقہ دیتے تھے۔ وہ شخص آپ کے ہاں سے رخصت ہوا لیکن اس نے آپ کے فرمان پر عمل نہ کیا اور وہ راستے میں ہلاک ہو گیا۔ جب امام محمد باقرؑ کو یہ خبر ملی تو فرمایا کہ اس شخص کو نصیحت کی گئی تھی، اگر وہ اس نصیحت کو مان لیتا تو اس ہلاکت سے بچ جاتا۔

سفر پر جانے سے قبل غسل کرنا بھی ضروری ہے۔ غسل کے بعد پھر اپنے اہل وعیال کو جمع کر کے دو رکعت نماز ادا کرے اور حق تعالیٰ سے اپنی خیریت کی دعا مانگے اور اس کے بعد آیۃالکرسی پڑھے، اللہ کی ثنا و حمد بجا لائے، محمدؐ وآل محمدؑ پر درود بھیجے اور یہ پڑھے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ٲَسْتَوْدِعُكَ الْیَوْمَ
1
اے معبود! آج کے دن میں تیرے سپرد کرتا ہوں
1
نَفْسِیْ وَٲَھْلِیْ وَمَالِیْ وَوُلْدِیْ
2
اپنی جان، اپنا خاندان، اپنا مال ومتاع، اپنی اولاد
2
وَمَنْ كَانَ مِنِّیْ بِسَبِیْلٍ الشَّاھِدَ مِنْھُمْ وَالْغَائِبَ
3
اور جو کوئی مجھ سے تعلق رکھتا ہے، چاہے حاضر ہے یا غائب
3
اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا بِحِفْظِ الْاِیْمَانِ، وَاحْفَظْ عَلَیْنَا۔
4
اے معبود! ہماری حفاظت فرما کر ہمارا ایمان اور ہماری جان محفوظ رکھ۔
4
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ
5
اے معبود! ہمیں اپنے سایۂ رحمت میں رکھ
5
وَلَا تَسْلُبْنَا فَضْلَكَ، اِنَّا اِلَیْكَ رَاغِبُوْنَ۔
6
اور اپنا فضل ہم سے دور نہ کر، بے شک ہم تیرے ہی مشتاق ہیں
6
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ
7
اے معبود! ہم تیری پناہ لیتے ہیں سفر کی مشکلوں سے
7
وَكَاٰبَۃِ الْمُنْقَلَبِ، وَسُوْءِ الْمَنْظَرِ
8
مایوس ہو کر واپس آنے سے، اور برے انجام سے
8
فِی الْاَھْلِ وَالْمَالِ وَالْوَلَدِ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔
9
اپنے خاندان، اپنے مال ومتاع اور اپنی اولاد کے بارے میں دنیا و آخرت میں۔
9
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ٲَتَوَجَّہُ اِلَیْكَ
10
اے معبود! میں تیری طرف متوجہ ہوا ہوں
10
ھٰذَا التَّوَجُّہَ طَلَبًا لِمَرْضَاتِكَ وَتَقَرُّبًا اِلَیْكَ۔
11
یہ توجہ تیری خوشنودی کی طلب اور تیرا تقرب حاصل کرنے کیلئے ہے
11
اَللّٰھُمَّ فَبَلِّغْنِیْ مَا ٲُؤَمِّلُہٗ وَٲَرْجُوْہُ
12
اے معبود! پس مجھے عطا کر وہ جس کی آرزو اور امید رکھتا ہوں
12
فِیْكَ وَفِیْ ٲَوْلِیَائِكَ، یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
13
تجھ سے اور تیرے اولیاء سے۔ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے!
13

اس کے بعد اپنے اہل و عیال کو وداع کرے اور اپنے مکان کے دروازے پر کھڑے ہو کر تسبیح فاطمہ زہراؑ پڑھے۔ پھر سامنے، دائیں اور بائیں طرف منہ کر کے سورۂ الحمد پڑھے اور اسی طرح آیۃ الکرسی بھی تینوں طرف منہ کر کے ایک ایک مرتبہ پڑھے اور پھر یہ دعا پڑھے:

یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
14
ہوں اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
14

اس کے بعد اپنے اہل وعیال کو وداع کرے اور اپنے مکان کے دروازے پر کھڑے ہو کر تسبیح فاطمہ زہراؑ پڑھے ،پھر سامنے دائیں اور بائیں طرف منہ کر کے سورہ الحمد پڑھے اور اسی طرح آیۃ الکرسی بھی تینوں طرف منہ کر کے ایک ایک مرتبہ پڑھے اور پھر یہ دعا پڑھے:

اَللّٰھُمَّ اِلَیْكَ وَجَّھْتُ وَجْھِیْ
15
اے معبود ! میں نے اپنا رخ تیری طرف کیا ہے
15
وَعَلَیْكَ خَلَّفْتُ ٲَھْلِیْ وَمَالِیْ وَمَا خَوَّلْتَنِیْ
16
اور تجھ پر چھوڑے جاتا ہوں اپنا خاندان، اپنا مال اور جو کچھ تو نے مجھے دے رکھا ہے
16
وَقَدْ وَثِقْتُ بِكَ، فَلَا تُخَیِّبْنِیْ
17
میں تجھ پر بھروسہ کرتا ہوں، پس مجھے نا امید نہ کر
17
یَا مَنْ لَا یُخَیِّبُ مَنْ ٲَرَادَہٗ
18
اے وہ جس کا قصد کرنے والا نا امید نہیں ہوتا
18
وَلَا یُضَیِّعُ مَنْ حَفِظَہٗ۔
19
اور جس کی وہ نگہبانی کرے وہ برباد نہیں ہوتا
19
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِہٖ
20
اے معبود! حضرت محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما
20
وَاحْفَظْنِیْ فِیْمَا غِبْتُ عَنْہُ
21
اور جن چیزوں کے پاس میں حاضر نہیں ان کی نگہداری کر
21
وَلَا تَكِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
22
اور مجھے میری خواہش کے سپرد نہ کر، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
22

پھر گیارہ مرتبہ سورۂ توحید پڑھے، ایک مرتبہ سورۂ قدر، آیۃ الکرسی، سورۂ ناس اور سورۂ فلق پڑھ کر اپنے ہاتھوں کو بدن پر پھیرے اور جس قدر ہو سکے صدقہ دے اور یہ پڑھے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اشْتَرَیْتُ بِھٰذِہِ الصَّدَقَۃِ
23
اے معبود! میں اس صدقہ کے بدلے حاصل کرنا چاہتا ہوں
23
سَلَامَتِیْ وَسَلَامَۃَ سَفَرِیْ وَمَا مَعِیْ۔
24
اپنی سلامتی، سفر میں خیریت اور اپنے متاع کی حفاظت
24
اَللّٰھُمَّ احْفَظْنِیْ وَاحْفَظْ مَا مَعِیَ
25
اے معبود ! میری حفاظت فرما اور میرے مال کی نگہداری کر
25
وَسَلِّمْنِیْ وَسَلِّمْ مَا مَعِیَ
26
مجھے اور جو میرے پاس ہے اسے سالم رکھ
26
وَبَلِّغْنِیْ وَبَلِّغْ مَا مَعِیَ بِبَلَاغِكَ الْحَسَنِ الْجَمِیْلِ۔
27
اور مجھے اور جو میرے ساتھ ہے اس کو خیر و خوبی سے منزل پر پہنچا دے۔
27

سفر کے دوران تلخ بادام کی لکڑی کا عصا بھی اپنے پاس رکھے، کیونکہ روایت ہے کہ جو شخص سفر پر جائے اور تلخ بادام کا عصا اپنے پاس رکھے اور یہ آیات پڑھے وَلَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ تا وَﷲُ عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ۔ یہ سورۂ قصص کی آیات 22 تا 28 ہیں اور ان کے پڑھنے سے خدا اس کو ہر درندے، چور اور ہر زہریلے حیوان سے محفوظ رکھے گا یہاں تک کہ وہ اپنے گھر واپس پہنچ جائے، نیز ستتر ﴿۷۷﴾ فرشتے اس کے ہمراہ رہیں گے اور جب تک وہ شخص واپس آ کر اپنا عصا ہاتھ سے رکھ نہ دے گا وہ اس کیلئے استغفار کرتے رہیں گے۔

سنت ہے کہ عمامہ باندھ کر روانہ ہو اور اس میں تحت الحنک بھی لگائے رکھے تاکہ کوئی آسیب نہ پہنچے اسے کوئی چور نہ لوٹے، دریا میں غرق نہ ہو اور آگ میں جل کے نہ مرے۔ نیز کربلائے معلّیٰ کی تھوڑی سی خاک شفا بھی اپنے پاس رکھے اور یہ خاک اٹھاتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ طِیْنَۃُ قَبْرِ الْحُسَیْنِ وَلِیِّكَ وَابْنِ وَلِیِّكَ
28
اے معبود! یہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند حسینؑ کے مزار کی خاک ہے
28
اتَّخَذْتُھَا حِرْزًا لِمَا ٲَخَافُ وَمَا لَا ٲَخَافُ۔
29
کہ جو میں نے اپنی پناہ کیلئے اٹھائی اس چیز سے جس سے ڈرتا ہوں اور جس سے نہیں ڈرتا۔
29

سفر میں عقیق و فیروزہ کی انگوٹھی پہنے اور خصوصاً زرد عقیق کی انگوٹھی کہ جس پر ایک طرف یہ نقش ہو:

مَاشَآءَ ﷲُ، لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ، اَسْتَغْفِرُ ﷲَ۔
30
وہی ہو گا جو خدا چاہے نہیں، کوئی قوت سوائے اللہ کے، میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں۔
30

اس انگوٹھی کی دوسری طرف محمدؐ و علیؑ ہر دو اسمائے مبارکہ نقش کیے گئے ہوں۔ سید ابن طاؤس نے امان الاخطار میں ابو محمد قاسم بن علاء سے اور انہوں نے امام علی نقیؑ کے خادم صافی سے روایت کی ہے کہ میں نے امام علی نقیؑ سے ان کے جد طاہر امام علی رضاؑ کی زیارت کو جانے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا کہ اپنے پاس زرد عقیق کی انگوٹھی رکھو کہ جس کی ایک طرف مَاشَآءَ ﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ اَسْتَغْفِرُ ﷲَ اور دوسری طرف محمدؐ و علیؑ کے اسمائے گرامی نقش ہوں۔ اگر تم یہ انگوٹھی اپنے ساتھ رکھو گے تو چوروں ڈاکوؤں کے شر سے محفوظ رہو گے اور یہ انگوٹھی تمہاری جان کی سلامتی اور تمہارے دین کی محافظ رہے گی۔ وہ خادم کہتا ہے کہ حضرتؑ کے ہاں سے آ کر جب میں نے ویسی ہی انگوٹھی مہیا کر لی تو پھر وداع کرنے کیلئے حضرتؑ کی خدمت میں گیا۔ آپ سے وداع کر کے جب چل پڑا تو میرے بہت دور نکل جانے کے بعد حضرتؑ نے مجھے واپس بلوایا، میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا اے صافی! فیروزہ کی انگوٹھی بھی لے جاؤ کہ طوس اور نیشاپور کے درمیان تمہیں ایک شیر سے سابقہ پڑے گا جو تمہیں اور تمہارے قافلے کو آگے نہ جانے دے گا۔ تب آگے بڑھ کر تم اس شیر کو یہ انگوٹھی دکھاتے ہوئے کہنا کہ میرے مولا فرماتے ہیں کہ تو ہمارے راستے سے ہٹ جا۔ ہاں اس فیروزہ کی ایک طرف اَللّٰهُ الْمَلِكُ اور دوسری طرف الْمُلْكُ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ کندہ کرا لینا، کہ اَللّٰهُ الْمَلِكُ امیر المؤمنینؑ کی انگوٹھی کا نقش تھا، جب آپ کو ظاہری خلافت ملی تو آپ نے اپنی انگوٹھی پر کندہ کرا لیا۔ آپ کی انگوٹھی فیروزہ کی تھی۔ یہ نگینہ درندوں سے امان کا باعث ہوتا ہے اور جنگ میں دشمنوں پر فتح و کامیابی کا موجب بنتا ہے۔ صافی کہتا ہے کہ میں اس سفر پر چلا گیا اور خدا کی قسم جیسے میرے مولا نے فرمایا تھا وہ شیر اسی مقام پر ہمارے آگے آیا اور میں نے اپنے آقا کے فرمان پر عمل کیا تو وہ شیر پلٹ گیا۔ جب میں زیارت کر کے واپس آیا تو میں نے یہ واقعہ حضرتؑ کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ نے فرمایا ایک بات رہ گئی جو تم نے نہیں بتائی۔ اگر تم چاہو تو وہ بات بتا دوں؟ میں نے عرض کی کہ شاید وہ بات میں بھول گیا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ طوس میں جب تم رات کو قبر امامؑ کے قریب سو رہے تھے تو جنات کا ایک گروہ امام علی رضاؑ کی زیارت کو وہاں آیا ہوا تھا، انہوں نے تمہارے ہاتھ میں اس انگوٹھی پر وہ نقش دیکھا تو انگوٹھی اتار کر لے گئے، اسے پانی میں ڈال کر وہ پانی اپنے ایک بیمار کو پلایا تو وہ تندرست ہو گیا۔ وہ انگوٹھی لا کر انہوں نے تیرے بائیں ہاتھ میں پہنا دی جب کہ سوتے وقت وہ تمہارے دائیں ہاتھ میں تھی اس سے تمہیں تعجب ہوا اور تمہاری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ نیز تم نے اپنے سرہانے ایک یاقوت پڑا پایا اور اسے اٹھا لیا، جو اب بھی تمہارے پاس ہے، یہ یاقوت وہ جنات تمہارے لئے بطور ہدیہ لائے تھے۔ تم اسے بازار لے جاؤ تو اس کو اسّی ﴿80﴾ اشرفی میں بیچ سکتے ہو۔ وہ خادم بیان کرتا ہے کہ میں نے وہ یاقوت بازار میں اسی ﴿80﴾اشرفی میں ہی فروخت کیا جیسا کہ میرے مولاؑ نے فرمایا تھا۔

امام جعفر صادقؑ کا ارشاد ہے کہ جو شخص سفرمیں ہر رات آیۃ الکرسی پڑھے تو وہ خود اور اس کا مال ومتاع محفوظ رہیں گے۔ نیز یہ دعا بھی پڑھیں:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ مَسِیْرِیْ عَبْرًا
31
اے معبود !میری رفتار کو عبرت،
31
وَصُمْتِیْ تَفَكُّرًا، وَكَلَامِیْ ذِكْرًا۔
32
میری خاموشی کو غور و فکر اور میرے کلام کو ذکر قرار دے۔
32

امام زین العابدینؑ سے منقول ہے کہ جب میں ذیل کے دعائیہ کلمات پڑھ لیتا ہوں تو پھر میں کوئی پروا نہیں کرتا خواہ مجھے ضرر پہنچانے کے لئے تمام جن و انس بھی جمع ہو جائیں۔

بِسْمِ ﷲِ، وَبِاللّٰهِ، وَمِنَ ﷲِ
33
خدا کے نام سے، خدا کی ذات سے، خدا کے اذن سے
33
وَاِلَی ﷲِ، وَفِیْ سَبِیْلِ ﷲِ۔
34
خدا کی طرف اور خدا کی راہ میں
34
اَللّٰھُمَّ اِلَیْكَ ٲَسْلَمْتُ نَفْسِیْ
35
اے معبود! میں نے اپنی جان تجھے سونپ دی
35
وَاِلَیْكَ وَجَّھْتُ وَجْھِیْ
36
اپنا رخ تیری جانب کر لیا
36
وَاِلَیْكَ فَوَّضْتُ ٲَمْرِیْ
37
اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا
37
فَاحْفَظْنِیْ بِحِفْظِ الْاِیْمَانِ
38
تو مجھے ایمان کی حفاظت کے ساتھ محفوظ کر
38
مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ، وَمِنْ خَلْفِیْ، وَعَنْ یَمِیْنِیْ
39
میرے آگے سے، میرے پیچھے سے، میرے دائیں سے،
39
وَعَنْ شِمَالِیْ، وَمِنْ فَوْقِیْ، وَمِنْ تَحْتِیْ
40
میرے بائیں سے، میرے اوپر سے، میرے نیچے سے
40
وَادْفَعْ عَنِّیْ بِحَوْلِكَ وَقُوَّتِكَ
41
اور اپنی بخشش و قوت سے میرا دفاع کرتا رہ
41
فَاِنَّہٗ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔
42
کیونکہ نہیں کوئی طاقت و قوت مگر وہ جو بلند تر بزرگ تر خدا سے ہے۔
42

دورانِ سفر

مؤلف کہتے ہیں کہ سفر کے آداب کے بارے میں بہت سی دعائیں وارد ہوئی ہیں مگر یہاں ہم ان میں سے چند ایک کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔

﴿۱﴾ ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ جب سوار ہونے لگے توبسم اللہ کا پڑھنا ہر گز ترک نہ کرے۔

﴿۲﴾ اپنے کھانے پینے کی چیزوں اور نقدی کی حفاظت کرے اور ان کو کسی محفوظ جگہ پر رکھے۔اس بارے میں روایت ہوئی ہے کہ مسافر کی سمجھ بوجھ کا معیار یہی ہے کہ وہ اپنی خوراک اور سفر خرچ کو سنبھال کر رکھے۔

﴿۳﴾ سفر کے دوران اپنے ساتھیوں کی مدد اور خدمت کرنے میں بے اعتنائی نہ کرے تاکہ حق تعالیٰ اس کی تہتر ﴿۷۳﴾ پریشانیاں دور کر دے، دنیا میں اس کو فکر و اندیشے سے بچائے رکھے اور قیامت میں فزع اکبر ﴿بہت بڑے غم واندوہ﴾ سے محفوظ فرمائے۔ روایت میں آیا ہے کہ امام زین العابدینؑ ایسے لوگوں کے ہمراہ سفر فرماتے تھے جو آپ کو پہچانتے نہ ہوں تاکہ راستہ میں حضرتؑ ان کی اعانت کر پائیں۔ کیونکہ جب آپ جان پہچان والے لوگوں کے ہمراہ سفر فرماتے تو وہ آپ کو کام میں ہاتھ نہیں بٹانے دیتے تھے۔ حضرت رسولؐ کا طریقہ یہ تھا کہ جب اپنے اصحاب کے ہمراہ سفر کرتے اور اگر آپ کوئی گوسفند ذبح کرنے لگتے تو ایک صحابی کہتا کہ اسے میں ذبح کروں گا، دوسرا کہتا کہ اس کی کھال میں اتاروں گا اور تیسرا یہ کہتا کہ اس کا پکانا میرے ذمے ہے۔ اور آنحضرتؐ فرماتے کہ اس کو پکانے کے لئے لکڑیاں لانا میرا کام ہے۔ اس پر اصحاب عرض کرتے کہ حضورؐ یہ سارے کام ہم خود کریں گے، آپ یہ زحمت نہ فرمائیں۔ آنحضرتؐ فرماتے کہ میں جانتا ہوں تم یہ کام انجام دے لو گے لیکن میں نہیں چاہتا کہ تم سے الگ رہوں، کیونکہ خدا اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ اس کا کوئی بندہ خود کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ واضح رہے کہ سفر میں اپنے ساتھیوں کے لئے سب سے بڑا بوجھ وہ شخص ہے جو صحیح و سالم ہوتے ہوئے بھی اپنے حصے کا کام کرنے میں سستی برتے اور اس انتظار میں رہے کہ اس کا کام دوسرے لوگ انجام دیں۔

﴿۴﴾ ایسے لوگوں کے ساتھ سفر کرے جو خرچ کرنے میں اس کے برابر ہوں۔

﴿۵﴾ کسی جگہ کا پانی اس وقت تک نہ پئے جب تک اس میں پچھلی منزل کا پانی نہ ملا لے۔ مسافر کے لئے ضروری ہے کہ جس جگہ وہ پلا بڑھا ہو وہاں کی مٹی اپنے پاس رکھے اور جب کسی جگہ کا پانی پینے لگے تو وہ مٹی اس پانی میں ڈال کر خوب ہلائے پھر اس کو رکھ دے یہاں تک کہ مٹی بیٹھ جائے اور پانی صاف ہو جائے تب اس کو پئے۔

﴿۶﴾ اپنے اخلاق و عادات کو سنوارے اور نرمی و ملائمت سے کام لے ۔اس بارے میں کچھ اور باتوں کا ذکر انشاء اللہ امام حسینؑ کی زیارت کے ذیل میں آئے گا۔

﴿۷﴾ سفر میں اپنا خرچ اپنے ہمراہ رکھے، کیونکہ انسان کے لئے یہ عزت و شرافت کی بات ہے کہ دوران سفر بہترین نان و نفقہ اپنے ساتھ رکھے اور خاص کر مکہ معظمہ کے سفر میں اس کا بہت دھیان رکھے۔ البتہ امام حسینؑ کی زیارت کے سفر میں لذیذ غذائیں مثلا حلوہ اور بریانی وغیرہ کھانا چنداں مناسب نہیں ہے، جیسا کہ آنحضرتؐ کی زیارت میں اس کا ذکر آئے گا۔ ابن اعثم نے اسی مفہوم کو ان اشعار میں ادا کیا ہے۔

مِنْ شَرَفِ الْاِنْسَانِ فِی الْاَسْفَارِ، تَطْیِیْبُہُ الزَّادَ مَعَ الْاِكْثَارِ
43
سفر کے دوران انسان کی عزت اس میں ہے، کہ اس کے پاس اچھا اور زیادہ سامان سفر ہو
43
وَلْیُحْسِنِ الْاِنْسَانُ فِیْ حَالِ السَّفَرِ، ٲَخْلَاقَۃُ زِیَادَۃً عَلَی الْحَضَرِ
44
حالت سفر میں انسان کے لئے بہتر ہے کہ، وہ حضر کی نسبت زیادہ بلند اخلاق ہو
44
وَلْیَدْعُ عِنْدَ الْوَضْعِ لِلْخِوَانِ، مَنْ كَانَ حَاضِرًا مِنَ الْاِخْوَانِ
45
جب دستر خوان پر کھانا چنا جائے تو، جو مرد و زن وہاں ہوں ان کو وہاں بلائے
45
وَلْیُكْثِرِ الْمَزْحَ مَعَ الصَّحْبِ اِذَا، لَمْ یُسْخِطِ ﷲَ وَلَمْ یَجْلِبْ ٲَذٰی
46
اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مزاحیہ گفتگو کرے، اس میں کسی کو ستانے اور خدا کی ناراضگی کا پہلو نہ ہو
46
مَنْ جَاءَ بَلْدَۃً فَذَا ضَیْفٌ عَلٰی، اِخْوَانِہٖ فِیْھَا اِلٰی ٲَنْ یَرْحَلَا
47
جوکسی شہرمیں آئے وہ مہمان ہوتا ہے، وہاں رہنے والے بھائیوں کا جب تک چلا نہ جائے
47
یُبَرُّ لَیْلَتَیْنِ ثُمَّ لیَٲْكُلِ، مِنْ ٲَكْلِ ٲَھْلِ الْبَیْتِ فِی الْمُسْتَقْبِلِ
48
دو راتوں کی خاطر تواضع مہمان کا حق ہے، پھر گھر والوں کے ساتھ عام کھانا کھائے
48

﴿۸﴾ سفر کے دوران جس کی رعایت کرنا بہت ضروری ہے کہ مسافر اپنی فریضہ نماز کو حدود و شرائط کے ساتھ اول وقت میں بجا لائے۔ کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ حاجی و زائر حضرات راستے میں نماز نہیں پڑھتے یا شرائط کا دھیان نہیں رکھتے اور گاڑی و موٹر وغیرہ پر تیمم کر کے مشکوک کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو مسائل کا علم نہیں ہوتا، یا نماز ادا کرنے میں بے اعتنائی سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ امام جعفر صادقؑ کا ارشاد ہے کہ فریضہ نماز بیس حج سے بہتر ہے اور ایک حج، سونے سے بھرے ہوئے مکان کو صدقے میں دے دینے سے بہتر ہے۔ سفر میں نماز پڑھنا چاہیئے اور نماز قصر کے بعد کی تسبیح کو تیس مرتبہ پڑھنا ترک نہ کریں کیونکہ اس کے پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید بیان ہوئی ہے:

سُبْحَانَ ﷲِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ
49
اللہ پاک تر ہے، حمد اللہ ہی کے لیے ہے
49
وَلَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ وَﷲُ اَكْبَرُ
50
اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ بزرگ تر ہے۔
50