اصل بات شروع کرنے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے، جو کتاب ہدیہ میں کتاب تحیہ سے منقول ہے، کہ یہ سرداب پہلے امام حسن عسکریؑ اور امام علی نقیؑ کے گھر میں تھا۔ یہ تہہ خانہ یا سرداب جو امامؑ کے گھر میں تھا، موجودہ عمارت کی تعمیر سے قبل اس تک پہنچنے کا راستہ اس گھر کے اندر ہی تھا جو جناب نرجس خاتونؑ کی قبر کے نزدیک سے ہو کر گزرتا تھا۔ اور ممکن ہے کہ اب وہ جگہ رواق میں آ گئی ہو۔ اس سے پہلے زائرین اس گھر کے اندر والے راستے سے جاتے تھے تو ایک تاریک برآمدے میں سے گزر کر سرداب میں اس جگہ پر پہنچتے تھے جہاں امام العصر ﴿عج﴾ غائب ہوئے تھے، جسے آج کل آئینہ کاری اور بجلی کے قمقموں سے سجا دیا گیا ہے۔ نیز وہ جالیاں جو سرداب میں سورج کی روشنی آنے کے لیے لگائی گئی تھیں وہ قبلہ کی سمت عسکریینؑ کے صحن مبارک میں تھیں جن کو اب محرابی شکل دے کر منقش کر دیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ قبل ازیں لوگ امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے حرم مبارک ہی سے تینوں زیارتیں یعنی دونوں ائمہؑ کی زیارت اور سرداب کے اعمال بجا لاتے تھے ﴿یعنی دونوں ائمہؑ کی زیارت کے بعد زینے بند کر دیے گئے ہیں اور ائمہؑ کی زیارت کے بعد مسجد کے اندر بنائے گئے زینے کے ذریعے سرداب میں جاتے ہیں﴾۔ اسی لیے شہید اولؒ نے عسکریینؑ کی زیارت کے بعد سرداب اور پھر جناب نرجس خاتونؑ کی زیارت نقل فرمائی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سو سال سے کچھ پہلے جناب احمد خاں دنبلی نے ایک بہت بڑی رقم اکٹھی کر کے ان دونوں آئمہؑ کے صحن اور قبہ کو موجودہ شکل میں تعمیر کرایا، اس میں روضہ، رواق اور قبۂ بلند بنایا اور سرداب کے لیے الگ صحن بنایا، اور حرم کے اندر سے سرداب کو جانے والا راستہ بند کر کے مسجد کے اندر سے نیا راستہ بنوایا۔ نیز سرداب میں عورتوں کیلئے علیحدہ برآمدہ بنایا جیسا کہ وہ آج کل موجود ہے۔ لہٰذا پہلا راستہ اور سرداب کا دروازہ بالکل بند ہو گیا ہے اور اس کا اب نشان بھی باقی نہیں ہے۔ لہٰذا حرم کی قدیمی عمارت کے لحاظ سے جو آداب وارد ہوئے ہیں ان کے انجام دینے کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی کیونکہ دو الگ الگ قبے بن چکے ہیں اور آمدورفت کے پرانے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ سرداب میں پڑھنے کے لیے جو زیارتیں نقل ہوئی ہیں ان کے پڑھے جانے میں اس تبدیلی سے کوئی فرق نہیں آیا۔

علمائے اعلام کی تصریح اور استقراء کے مطابق ہر دروازے پر اذن دخول کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور ہر امامؑ کی زیارت کے وقت جس دروازے سے ممکن ہو اذن دخول لینا ضروری ہے۔ لہٰذا اب جو نئے دروازے بنائے گئے ہیں انہی دروازوں پر رک کر اذن دخول پڑھنا اور پھر اندر جانا چاہیے اور اذن دخول پڑھے بغیر کسی زائر کو نہیں جانا چاہیے۔

سرداب کے اندر جانے کا اذن دخول وہ زیارت ہے جو اگلے صفحات پر زیارت دیگر [دوسری زیارت] کے عنوان سے آئے گی اور اس کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا خَلِیْفَۃَ ﷲِ .... اور اس کے آخر میں اذن و خول کے جملے ہیں، لہٰذا سرداب میں اترنے سے پہلے یہی زیارت دروازے پر کھڑے ہو کر پڑھنی چاہیے۔

سید بن طاؤس نے بھی سرداب میں جانے کیلئے ایک اذن دخول نقل کیا ہے جس کا مضمون اس اذن دخول جیسا ہے جو ہر امامؑ کے حرم میں داخل ہونے سے پہلے پڑھا جاتا ہے، جسے ہم نے باب زیارت کی دوسری فصل کے شروع میں نقل کیا ہے۔ نیز سرداب میں داخل ہونے کیلئے علامہ مجلسیؒ نے بھی ایک اذن دخول نقل فرمایا ہے جس کا آغاز ان جملوں سے ہوتا ہے اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذِہٖ بُقْعَۃٌ طَھَّرْتَھَا وَعَقْوَۃٌ شَرَّفْتَھَا .... اسے بھی ہم زیارات کی دوسری فصل کے آغاز میں نقل کر آئے ہیں۔

حرم ہائے مبارکہ کے لیے اذن دخول

پس جب اذن دخول پڑھ چکے تو سرداب کے اندر چلا جائے اور حضرت صاحب العصرؑ کی زیارت اس طرح پڑھے جیسے انہوں نے خود فرمایا ہے۔ چنانچہ شیخ احمد بن ابی طالب طبرسیؒ نے الاحتجاج میں روایت کی ہے کہ کسی شخص نے حضرت سے چند سوال کیے تو ناحیۂ مقدسہ سے ان کا جواب محمد حمیری کے پاس آیا جو یوں تھا:

بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
1
خدا کے نام سے شروع جو بڑا مہربان رحم والا ہے
1
لَا لِاَمْرِھٖ تَعْقِلُوْنَ
2
نہ وہ اس کے فعل پر غور کرتے ہیں
2
وَلَا مِنْ ٲَوْلِیَائِہٖ تَقْبَلُوْنَ حِكْمَۃٌ بَالِغَۃٌ
3
اور نہ اس کے دوستوں کی بتائی ہوئی دانائی کی باتیں قبول کرتے ہیں
3
فَمَا تُغْنِی النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا یُؤْمِنُوْنَ
4
تو کیا ڈرانے والے کافی نہیں ہیں
4
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ ﷲِ الصَّالِحِیْنَ۔
5
سلام ہو ہم پر اور خدا کے نیک بندوں پر۔
5