ماہ شعبان کے پہلے دن کا روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ اور امام جعفر صادقؑ سے روایت ہوئی ہے کہ یکم شعبان کا روزہ رکھنے والے کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ سید ابن طاؤس نے رسول اللہ سے نقل کیا ہے کہ شعبان کے پہلے تین دن کا روزہ رکھنے اور پہلی تین راتوں میں دو، دو رکعت نماز پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے، اس نماز کی ہر رکعت میں سورۂ حمد کے بعد گیارہ مرتبہ سورہ توحید پڑھے۔

واضح رہے کہ ماہ شعبان اور اس کے پہلے دن کے روزے کی فضیلت تفسیر امامؑ میں مذکور ہے۔ ہمارے استاد ثقۃ الاسلام نوریؒ نے کتاب کلمہ طیبہ کے آخر میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں اس کے بہت سے فوائد و برکات کا ذکر ہے۔ یہ روایت بڑی طویل ہے، ہم یہاں اس کا خلاصہ نقل کر رہے ہیں۔

خلاصۂ روایت

یکم شعبان کو چند افراد مسجد میں بیٹھے قضا و قدر کے مسئلہ پر بحث و تکرار کرتے ہوئے بلند آواز سے بول رہے تھے۔ امیر المؤمنینؑ نے ان لوگوں کو سلام کیا، جب انہوں نے آپ سے وہاں تشریف رکھنے کی خواہش کی تو آپ نے فرمایا تم لوگ ایسی باتیں کر رہے ہو، جن میں کوئی فائدہ نہیں۔ آیا تم نہیں جانتے کہ خدا کے ایسے بندے بھی ہیں جو صرف خوف خدا سے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں لیکن وہ بولنے سے قاصر نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے کہ جب ان کے دلوں میں عظمت خداوندی کا تصور آتا ہے تو ان کی زبانیں گنگ اور ان کی عقلیں حیران ہو جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنی حالت میں آتے ہیں تو خود کو بارگاہ الٰہی میں گنہگار و خطاکار سمجھتے ہوئے آہیں بھرتے ہیں جبکہ وہ گناہوں سے مبرا ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے عمل کو کم تر سمجھتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ہم میں تقصیر اور کوتاہی ہے، پس وہ ہر وقت عمل خیر میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کی طرف نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالت خوف میں عبادت میں کھڑے ہیں اور ان کا اضطراب ظاہر ہے۔ ان لوگوں کے مقابلے میں تم کہاں ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ سب سے بڑا دانا وہ ہے جو زیادہ خاموش رہے، اور سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو بہت زیادہ باتیں کرتا ہو۔

اے نادان و کم سمجھ لوگو! آج یکم شعبان ہے اور خدائے تعالیٰ نے اس کا نام شعبان اس لیے رکھا ہے کہ اس میں نیکیاں عام کر دی جاتی ہیں، حسنات کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جنت کے محلات ارزاں قیمت اور آسان تر اعمال سے حاصل ہوتے ہیں، پس عبادت کر کے انہیں خرید لو۔ شیطان ابلیس نے برائیوں کو تمہارے لیے پسندیدہ بنا دیا ہے۔ تم گمراہی نافرمانی اور سرکشی میں پڑے ہو، شیاطین کی بدیوں اور برائیوں کی طرف متوجہ ہو اور شعبان کی خوبیوں اور اچھائیوں سے منہ نہ موڑو جب کہ خدا کی طرف سے حسنات و خیرات کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ آج یکم شعبان ہے اور اس کی حسنات و خیرات میں نماز، روزہ، امر بہ معروف و نہی از منکر، والدین، ہمسایہ اور اقربا سے حسن سلوک، آپس کے اختلافات دور کرنا اور فقراء و مساکین کے لیے صدقہ و خیرات کرنا ہے۔ ادھر تم ہو کہ قضا و قدر کی بحث میں الجھے ہوئے ہو کہ جس کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا۔ جن باتوں سے تمہیں منع کیا گیا ہے تم ان میں مشغول ہو۔ خبردار رہو کہ جو راز الٰہی کے کھولنے میں کوشاں ہو گا وہ برباد ہو جائے گا۔ آج کے دن اطاعت کرنے والوں کے لیے خدا نے جو کچھ مہیا فرمایا ہے اگر تمہیں اس کا علم ہو جائے تو یقیناً تم ان بے کار بحثوں کو چھوڑ کر احکام خدا کی طرف متوجہ ہو جاؤ گے۔

ان سب نے عرض کی کہ یا امیر المؤمنینؑ! خدا تعالیٰ نے اطاعت گذاروں کے لیے کیا کچھ مہیا فرمایا ہے؟ تب حضرت نے ایک لشکر کا قصہ اس طرح نقل فرمایا:

رسول اکرمؐ نے کفار سے جنگ کے لیے ایک لشکر بھیجا تو کافروں نے اس پر شب خون مارا جب کہ وہ ایک تاریک ترین رات تھی اور سبھی مسلمان پڑے سورہے تھے۔ اس لشکر میں سے صرف چار افراد جاگ رہے تھے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے لشکر کے ایک کونے پر تلاوت، ذکر اور نماز میں مشغول تھا۔ یہ چار افراد زید بن حارثہ، عبد اللہ بن رواحہ، قتادہ بن نعمان اور قیس بن عاصم منقری تھے۔ جب دشمن نے مسلمانوں پر سوتے میں حملہ کر دیا تو قریب تھا کہ سب کے سب مارے جائیں، لیکن اچانک ان چار اشخاص کے چہروں سے نور کی کرنیں پھوٹ نکلیں کہ سارا میدان روشن ہو گیا۔ اس روشنی میں مسلمان سنبھلے اور دیکھ بھال کر دشمن کا مقابلہ کرنے لگے۔ اور اس نور کو دیکھ کر ان کے حوصلے اور بھی بڑھتے جاتے تھے۔ پس انہوں نے دشمنوں کو تلواروں سے زیر کر لیا، یہاں تک کہ بہت سے مارے گئے اور بہت سے زخمی و اسیر ہو گئے۔ جب یہ فاتح لشکر واپس آیا تو یہ ماجرا رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نور تمہارے ان بھائیوں کے ان اعمال کی برکت سے ظاہر ہوا جو اس رات ﴿یکم شعبان کے سلسلہ میں﴾ انجام دے رہے تھے۔ ہاں یہ یکم شعبان کے اعمال ہی ہیں کہ جن کے باعث تمہیں فتح حاصل ہوئی اور تم لوگ دشمن کے اچانک حملے میں اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہے ہو۔

پھر آنحضرتؐ نے ایک ایک کر کے یکم شعبان کے اعمال کا ذکر فرماتے ہوئے کہا: جب یکم شعبان کا دن آتا ہے تو شیطان اپنے گماشتوں سے کہتا ہے کہ ہر طرف پھیل جاؤ، لوگوں کو اپنی طرف بلاؤ اور انہیں خدا سے دور کرو۔ جب کہ خدائے رحمان اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے کہ آج یکم شعبان ہے، تم ہر طرف پھیل جاؤ اور میرے بندوں کو میری طرف بلاؤ، انہیں نیکی کی طرف راغب کرو تاکہ وہ سب با سعادت اور نیک بخت بن جائیں البتہ ان میں سے سرکش اور نافرمان لوگ شیطان کے گروہ میں ہی رہیں گے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جب یکم شعبان ہوتی ہے تو بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، شجر طوبیٰ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنی شاخیں پھیلائے اور انہیں زمین کے قریب کرے۔ خدا کا ایک منادی یہ ندا دیتا ہے کہ اے خدا کے بندو اور اے نیکوکار لوگو! طوبیٰ کی ان شاخوں سے لپٹ جاؤ کہ وہ تمہیں اٹھا کے جنت میں لے جائیں۔ جب کہ بدکاروں کی لیے تھوہر کا درخت ہے اور ڈرتے رہو کہ کہیں اس کی شاخیں تمہیں جہنم میں نہ لے جائیں۔

رسولؐ اللہ نے یہ بھی فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے مجھ کو حق کے ساتھ رسالت پر مبعوث فرمایا کہ جو یکم شعبان کے دن نیکی کرے تو وہ طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا اور وہ اسے جنت میں لے جائے گی۔ پھر فرمایا جو آج کے دن نماز پڑھے یا روزہ رکھے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ اسی طرح جو شخص آج کے دن باپ بیٹے میں صلح کرائے، میاں بیوی میں سمجھوتہ کرائے، رشتہ داروں میں راضی نامہ کرائے یا اپنے ہمسائے یا کسی اجنبی میں مصالحت کرائے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو مقروض کی پریشانی کم کرے یا طلب میں تخفیف کرے تو وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو شخص آج کے دن اپنے حساب پر نظر کرے اور دیکھے کہ ایک پرانا قرضہ ہے جسے مقروض ادا نہیں کر سکتا، پس وہ اس قرضے کو حساب سے کاٹ دے تو وہ طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا۔ جو کسی یتیم کی کفالت کرے، کسی جاہل کو مؤمن کی ہتک کرنے سے باز کرے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو قرآن کی تلاوت کرے، مریض کی عیادت کرے، خداکا ذکر کرے اور خدا کی نعمتوں کا نام لے لے کر اس کا شکر ادا کرے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا۔ جو شخص آج کے دن اپنے ماں یا باپ یا دونوں میں سے ایک کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹا، جو اس سے پہلے کسی کو غضب ناک کر چکا ہو اور آج اسے راضی اور خوش کر دے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹا جو شخص جنازے کے ساتھ چلے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا۔ جو کسی مصیبت زدہ کی بھی دلجوئی کرے وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹا اور جو شخص آج کے دن کوئی بھی نیک کام کرے تو وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔

اس کے بعد رسول اکرم نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے مجھ کو رسالت پر مامور کیا ہے کہ جو شخص آج کے دن شر و بدی کا کوئی بھی کام کرے تو وہ زقوم ﴿تھوہر﴾ کی شاخوں سے لپٹ گیا اور وہ اسے جہنم کی طرف کھینچ لے جائیں گیں۔ پھر فرمایا کہ قسم ہے مجھ کو اس ہستی کی جس نے مجھے پیغمبرؐ قرار دیا کہ جو شخص بھی آج کے دن واجب نماز میں کوتاہی کرتے ہوئے اسے ضائع کرے تو وہ بھی شجر زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ جس کے پاس کوئی فقیر و ناتواں آئے کہ جس کی حالت کو یہ جانتا ہے اور اس کی حالت کو بدل بھی سکتا ہے کہ خود اس کو کچھ ضرر نہیں پہنچتا، نیز اس غریب کی مدد کرنے والا کوئی دوسرا شخص بھی نہ ہو، پس اگر وہ اس درماندہ کو اس حالت میں چھوڑدے اور وہ ہلاک ہو جائے تو یہ مدد نہ کرنے والازقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ جس کے سامنے کوئی برے کام والا آدمی معذرت کرے اور پھر بھی وہ اس کو اس کی برائی کی سزا سے کچھ زیادہ سزا دے تو یہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹا۔ جو شخص آج کے دن میاں بیوی یا باپ بیٹے یا بھائی بھائی یا بھائی بہن یا کسی قریبی رشتہ داریا ہمسائے یا دو دوستوں میں جدائی اور غلط فہمی پیدا کرے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ جو شخص کسی تنگ دست پر سختی کرے کہ جس کی حالت کو جانتا یے اور اس کی مصیبت میں اپنے غصے کا اضافہ کرے تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹا۔ جس پر کسی کا قرض ہو اور یہ اس کا انکار کر دے اور اپنی عیاری سے اس قرض کو باطل قرار دے تو یہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ جو شخص کسی یتیم کو اذیت دے، اس پر ستم توڑے اور اس کے مال و متاع کو ضائع کر دے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ اور جو شخص کسی مومن کی عزت کو خراب کرے اور دوسروں کو ایسا کرنے کے لیے شہ دے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹا۔ جو شخص اس طرح گانا گائے کہ لوگ اس کے گانوں سے گناہوں میں مبتلا ہوں تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹا۔ اور جو شخص زمانۂ جنگ میں کیے ہوئے اپنے برے کاموں اور اپنے ظلم و ستم کے دوسرے واقعات لوگوں میں بیٹھ کر فخر سے سنائے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹا۔ جو شخص اپنے بیمار ہمسائے کو کم تر تصور کرتے ہوئے اس کی عیادت نہ کرے تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ اور جو شخص اپنے مردہ ہمسائے کو ذلیل سمجھتے ہوئے اس کے جنازے کے ساتھ نہ جائے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹا۔ جو شخص کسی ستم رسیدہ سے بے رخی برتے اور اسے پست خیال کرتے ہوئے اس پر سختی کرے تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹا اور جو شخص اپنے ماں باپ یا دونوں میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو جائے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ جو شخص آج کے دن سے قبل اپنے ماں باپ کا نافرمان ہو اور آج کے دن ان کو راضی و خوش نہ کرے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ نیز جو بھی شخص ان برائیوں کے علاوہ کسی اور بدی و گناہ کا ارتکاب کرے تو وہ بھی درخت زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔

آنحضرتؐ نے مزید فرمایا: قسم ہے مجھے اس ذات کی جس نے مجھ کو نبیؐ و پیغمبرؐ بنایا کہ جو لوگ درخت طوبیٰ کی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہوں گے وہ انہیں اٹھا کر جنت میں لے جائیں گے۔ اس کے بعد رسول اللہ نے چند لمحوں کیلئے اپنی نگاہ آسمان کی طرف بلند کی تو آپ خوش ہوئے اور ہنسے پھر اپنی نگاہ زمین پر ڈالی اور آپؐ کا چہرہ مبارک کچھ ترش ہوا۔ تب اپنے اصحاب کی سمت دیکھتے ہوئے فرمایا مجھ کو قسم ہے اس ہستی کی جس نے مجھے پیغمبرؐ قرار دیا کہ میں نے شجر طوبیٰ کو بلند ہوتے اور اپنے سے لپٹے ہوئے لوگوں کو جنت کی طرف لے جاتے دیکھا ہے بقدر اپنی اطاعت و نیکوکاری کے، کہ اس کی ایک شاخ یا کئی کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ زید بن حارثہ اس کی کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور وہ ان کو جنت کے مقام اعلیٰ علیین کی طرف بلند کرتی جارہی ہیں یہ دیکھ کر میں خوش ہوا اور ہنسا۔ پھر میں نے زمین پر نظر ڈالی تو قسم ہے اس ہستی کی جس نے مجھ کو نبیؐ بنایا کہ میں نے درخت زقوم کو دیکھا کہ اس کی شاخیں نیچے کو جارہی ہیں اور جو لوگ اپنی برائیوں کے مطابق اس کی ایک یا کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں وہ ان کو جہنم کے سب سے نچلے طبقے کی طرف لے جارہی ہیں۔ اس سے میرے چہرے پر بیزاری کے آثار ظاہر ہوئے تھے اور اس کے ساتھ کئی منافق لپٹے ہوئے تھے۔