جاننا چاہیئے کہ شب بیداری اور اس کی فضیلت میں صاحبان عصمت و طہارتؑ سے بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ شب بیداری مومن کا شرف ہے اور نماز تہجد بدن کی صحت اور دن کے گناہوں کا کفارہ ہے اور وحشت قبر کے دور ہونے کا سبب، نیز چہرے کی رونق، بدن میں خوشبو اور روزی میں اضافے کا ذریعہ ہے۔ جس طرح مال اور اولاد دنیا وی زندگی کی زینت ہیں اسی طرح رات کے آخری حصے میں آٹھ رکعت تہجد اور وتر آخرت کی زینت ہیں۔ اور بعض اوقات حق تعالیٰ ان ہر دو زینتوں کو اپنے کچھ بندوں کے ہاں یکجا بھی کر دیتا ہے۔ پس جھوٹا ہے وہ شخص کہ جو یہ کہتا ہے کہ میں نماز تہجد پڑھتا ہوں اور دن کو بھوکا رہ جاتا ہوں، کیونکہ نماز تہجد روزی کی ضامن ہے۔
امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ حضرت رسولؐ نے امیر المؤمنینؑ سے فرمایا: یا علی میں تمہارے ہی بارے میں تمہیں چند وصیتیں کرتا ہوں اور چند ایسے خصائل بتاتا ہوں کہ انہیں تم ضرور یاد رکھنا: اس کے بعد کہا کہ خداوندا! علی کی مدد فرما، پھر وہ چند خصائل بتانے کے بعد ارشاد کیا: وعَلَیْكَ بِصَلَاۃِ اللَّیْلِ، وَعَلَیْكَ بِصَلَاۃِ اللَّیْلِ، وَعَلَیْكَ بِصَلَاۃِ اللَّیْلِ۔ وَعَلَیْكَ بِصَلَاۃِ الزَّوَالِ، وَعَلَیْكَ بِصَلَاۃِ الزَّوَالِ، وَعَلَیْكَ بِصَلَاۃِ الزَّوَالِ (تم پر نماز تہجد کی ادائیگی لازم ہے، تم پر نماز تہجدکی ادائیگی لازم ہے، تم پر نماز تہجد کی ادائیگی لازم ہے۔ تم پر نماز زوال کی ادائیگی لازم ہے، تم پر نماز زوال کی ادائیگی لازم ہے، اور تم پر نماز زوال کی ادائیگی لازم ہے۔) اس سے ظاہر ہے کہ یہاں نماز شب سے آنحضرتؐ کی مراد تیرہ رکعت نماز تہجد اور نماز زوال سے مراد ظہر کے نوافل ہیں جو زوال کے وقت پڑھے جاتے ہیں۔
انس نے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت رسولؐ کو یہ فرماتے سنا: رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ کسی نے امام زین العابدین علیہ السلام سے پوچھا: آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ جو لوگ نماز شب ادا کرتے ہیں ان کے چہرے دوسروں سے زیادہ نورانی ہوتے ہیں؟ اس پر آپ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ خداے تعالیٰ کے ساتھ خلوت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنے نور سے ڈھانپ دیتا ہے۔ اس بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں۔ اور رات کو بیدار نہ ہونا مکروہ ہے، شیخ نے صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کوئی بھی بندہ ایسا نہیں ہے جو رات کو ایک دو یا اس سے زیادہ مرتبہ بیدار نہ ہوتا ہو ، اگر وہ اُٹھ کھڑا ہو تو بہتر ورنہ شیطان اپنے پاؤں پھیلا کر اس کے کانوں میں پیشاب کر دیتا ہے۔ آیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جو نماز شب کے لیے نہیں اُٹھتے وہ جب صبح کو بیدار ہوتے تو بوجھل سست اور پریشان طبیعت کے ساتھ اٹھتے ہیں۔ شیخ برقی نے معتبر سند کے ساتھ امام محمدباقرؑ سے روایت کی ہے کہ فرمایا: رات کا ایک شیطان ہوتا ہے کہ جس کو ”رہا“ کہا جاتا ہے پس جب انسان نیند سے بیدار ہوتا اور نماز شب ادا کرنے کے لیے اٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو یہ شیطان اس سے کہتا ہے کہ ابھی تمہارے اٹھنے کا وقت نہیں ہوا، تب وہ سو جاتا ہے اور جب وہ دوبارہ جاگتا ہے تو یہ اس سے کہتا ہے کہ اتنی بھی کیا جلدی ہے، ابھی بہت وقت ہے۔ اسی طرح وہ مسلسل اسے روکتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح صادق طلوع ہو جاتی ہے، اس وقت وہ ملعون اس شخص کے کان میں پیشاب کر کے بڑے ناز و انداز کے ساتھ دم ہلاتا ہوا چلاجاتا ہے۔ ابن ابی جمہور نے حضرت رسولؐ سے روایت کی ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تم میں سے جو بھی شخص رات کو سوتا ہے تو شیطان اس کے سر کے پچھلے حصے میں تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ پھونک دیتا ہے علیك لیل طویل فارقد یعنی رات بہت لمبی ہے، سوتے رہو۔ پھر جب وہ شخص بیدار ہوتا اور خدا کو یاد کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور جب نماز پڑھتا ہے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ تب وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کی طبیعت بشاش اور پاک و پاکیزہ ہوتی ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ سستی اور خباثت کے ساتھ صبح کرتا ہے، یہ روایت اہل سنت علماء نے بھی نقل کی ہے۔ قطب راوندی نے روایت کی ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: تین چیزوں کے ساتھ تین چیزوں کی آرزو نہ کرو شکم سیری کے ساتھ شب بیداری کی آرزو نہ کرو، رات بھر سوتے رہنے کے ساتھ سفید روئی کی آرزو نہ کرو، اور فاسقوں کے ساتھ دوستی میں دنیا کے امن و سکون کی آرزو نہ کرو۔ نیز قطب الدین راوندی ہی سے روایت ہے کہ جب حضرت مریمؑ کی وفات ہو گئی تو ان کے فرزند حضرت عیسیٰؑ نے ان سے کہا والدہ گرامی! میرے ساتھ بات کریں، آیا آپ چاہتی ہیں کہ دنیا میں واپس آ جائیں؟ انہوں نے کہا: ہاں! مگر اس لیے کہ سخت سردی کی راتوں میں نماز تہجد ادا کروں اور سخت گرمی کے دنوں میں روزے رکھوں! اے فرزند عزیز! یہ بڑا ہی کٹھن راستہ ہے۔
نماز تہجد کی کیفیت
نماز تہجد کی کیفیت نہایت ہی آسان ہے کہ جسے ہر شخص بجالا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جونہی نیند سے بیدار ہو تو خدا کیلئے سر سجدے میں رکھ دے، بہتر ہے کہ اسی حال میں یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت یہ دعا پڑھے:
پس جب اٹھ کر کھڑا ہو جائے تو یہ دعا پڑھے:
جب مرغ کی اذان سنے تو کہے:
جب آسمان کی طرف دیکھے تو کہے:
پھر سورۂ آل عمران کی یہ پانچ آیات پڑھے:
پس جب عبادت کی طرف متوجہ ہو اور بیت الخلا جانے کی ضرورت بھی ہو تو پہلے بیت الخلاء جائے۔ جب وہاں سے نکلے تو پہلے مسواک کرے۔ کامل طور پر وضو کرے، خوشبو لگائے اور پھر نماز شب کی ادائیگی کیلئے مصلے پر آ جائے۔ اس نماز کا اول وقت آدھی رات سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق کے طلوع ہونے سے جتنا نزدیک ہو بہتر ہے اگر صبح صادق طلوع ہو جائے تو پھر چار رکعت نماز شب ادا کرے اور باقی رکعتوں کو صرف سورۂ حمد کے ساتھ پڑھے۔ اگر اقت کافی ہے تو سب سے پہلے آٹھ رکعت نماز شب کی نیت سے دو دو رکعت کر کے پڑھے اور ہر دوسری رکعت پر سلام کہے اور بہتر ہے کہ پہلی دو رکعتوں میں سورۂ حمد کے بعد ساٹھ مرتبہ سورۂ توحید پڑھے یعنی ہر رکعت میں حمد کے بعد تیس تیس مرتبہ سورۂ توحید پڑھے اور جب یہ مکمل کر لے گا تو اس پر کوئی گناہ نہیں رہے گا۔ یا یہ کہ پہلی رکعت میں حمد کے بعد سورۂ توحید اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد سورۂ کافرون پڑھے باقی چھ رکعتوں میں سورہ حمد پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح ہر واجبی نماز میں قنوت مستحب ہے اسی طرح نوافل کی ہر دوسری رکعت میں بھی قنوت مستحب ہے اور قنوت میں صرف تین بار سبحان اللہ ﴿خدا پاک ہے﴾ کہنا بھی کافی ہے یا یہ دعا پڑھے:
یا یہ دعا پڑھے:
ایک روایت میں ہے کہ جب امام موسیٰ کاظمؑ محراب عبادت میں کھڑے ہوتے تو صحیفہ کاملہ کی پچاسویں دعا پڑھا کرتے تھے کہ جس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:
جب نماز شب کی آٹھ رکعتوں سے فارغ ہو جائے تو دو رکعت نماز شفع اور ایک رکعت وتر پڑھے۔ ان تینوں رکعتوں میں سورۂ حمد کے بعد سورۂ توحید پڑھے، یہ ایسا ہے گویا اس نے قرآن مجید کا ایک ختم کیا ہے، کیونکہ سورۂ توحید ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ یا یہ کہ نماز شفع کی پہلی رکعت میں حمد اور سورہ والناس پڑھے اور دوسری رکعت میں حمد اور سورۂ فلق پڑھے جب نماز شفع سے فارغ ہو جائے تو مستحب ہے کہ یہ دعا پڑھے:
یہ وہ دعا ہے جو مفاتیح الجناں میں پندرہ شعبان کی رات کے اعمال میں مذکور ہے۔ نماز شفع کی دو رکعتیں پڑھنے کے بعد نماز وتر کی ایک رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے، اس میں سورۂ حمد کے بعد ایک مرتبہ سورۂ توحید پڑھے یا سورۂ توحید تین مرتبہ اور اس کے بعد سورۂ فلق اور سورہ والناس پڑھے۔ پھر قنوت کیلئے ہاتھ اٹھاے اور جو دعا چاہے۔ مانگے شیخ طوسیؒ فرماتے ہیں اس موقع پر پڑھی جانے ولی دعائیں بہت زیادہ ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس میں کوئی خاص دعا پڑھی جائے اور کوئی دوسری دعا نہ پڑھی جا سکے۔ مستحب ہے کہ انسان نماز وتر کے قنوت میں خدا کے خوف اور اس کے عذاب کے ڈر سے گریہ کرے یا رونے کی شکل بنائے اور مومن بھائیوں کیلئے دعا مانگے۔ مستحب ہے کہ چالیس مومنوں کے نام لے کر دعا مانگے کیونکہ جو شخص چالیس مومنین کیلئے دعا مانگتا ہے اس کی دعا یقیناً قبول ہوتی ہے۔ پھر جو دعا چاہے مانگے شیخ صدوقؒ نے ”کتاب الفقیہ“میں لکھا ہے کہ حضرت رسولؐ اللہ نماز وتر کے قنوت میں یہ دعا پڑھتے تھے:
اور بہتر ہے کہ ستر مرتبہ کہے:
مناسب یہ ہے کہ استغفار کے لیے بائیں ہاتھ کو بلند کرے اور دائیں ہاتھ سے استغفار کو شمار کرے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ نماز وتر میں ستر مرتبہ استغفار کرتے اور سات مرتبہ یہ کہتے:
نیز یہ بھی مروی ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نماز تہجد کے وتر میں تین سو مرتبہ کہا کرتے تھے
اس کے بعد کہتے تھے
مناسب یہ ہے کہ اس قنوت کو طول دے جب اس سے فارغ ہو تو رکوع کرے اور اس سے سر اٹھا نے کے بعد وہ دعا پڑھے جو شیخ طوسیؒ نے تہذیب الاحکام میں امام موسیٰ کاظمؑ سے نقل کی ہے اور وہ دعا یہ ہے:
پھر سجدے میں جائے اور نماز وتر کو مکمل کرے اور سلام کے بعد تسبیح فاطمہ زہراؑ پڑھے اور پھر کہے:
اس کے بعد تین مرتبہ کہے:
پھر کہے:
مناسب ہے کہ اس کے بعد دعائے حزین پڑھے کہ جس کا آغاز اُنَاجِیْكَ یَا مَوْجُوْدُ فِیْ كُلِّ مَكَانٍ ..... سے ہوتا ہے یہ دعا باقیات و الصالحات کے ملحقات میں آئے گی۔
پھر سجدے میں جائے اور پانچ مرتبہ کہے:
اب بیٹھ کر آیت الکرسی پڑھے، پھر سجدے میں جائے اور ذکر سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ پانچ مرتبہ کرے۔
اس کے بعد نماز فجر کے نافلہ کے لیے کھڑا ہو جائے، نافلۂ صبح دو رکعت ہے۔ اس کی پہلی رکعت میں سورۂ حمد کے بعد سورہ کافرون اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد سورہ توحید پڑھے۔ نماز کا سلام دینے کے بعد پہلو کے بل روبہ قبلہ ہو کر یوں لیٹ جائے جیسے میّت کو قبر میں لٹا یاجاتا ہے، پس اپنا دایاں رخسارہ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھے اور یہ پڑھے:
پھر تین مرتبہ کہے:
اس کے بعد سورۂ آل عمران کی (مذکورہ بالا) پانچ آیات پڑھے جن کا شروع یہ ہے اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ .....
بعدمیں بیٹھ کر تسبیح حضرت زہراؑ پڑھے. کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں روایت ہوئی ہے کہ جو شخص صبح کے نافلہ اور فریضہ کے درمیان محمدؐو آل محمدؑ پر سو مرتبہ درود بھیجے تو اللہ اسے جہنم کی تپش سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص سو مرتبہ کہے:
تو حق تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ جو شخص اکیس مرتبہ سورۂ توحید پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے بھی جنت میں ایک گھر بنائے گا اور اگر چالیس مرتبہ سورۂ توحید پڑھے تو خدا تعالےٰ اسے بخش دے گا۔ بہتر ہے کہ نماز شب یعنی نماز تہجد کے بعدصحیفۂ کاملہ کی بتیسویں دعا پڑھے جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:
پھر سجدۂ شکر بجالائے اور بہتر ہے کہ اس میں مومن بھائیوں کے لیے دعا کرے اور اسی حالت سجدہ میں اَللّٰھُمَّ رَب الْفَجْرِ ... (اے معبود! اے فجر کے رب) سے شروع ہونے والی دعا پڑھے جو سجدۂ شکر کے بیان میں ذکر ہو چکی ہے۔
مؤلف کو اپنے مؤمن بھائیوں سے قوی امید ہے کہ وہ حالت سجدہ میں اس کے لیے بھی دعا کریں گے کیونکہ اسے ان کی دعاؤں کی سخت ضرورت ہے۔ اور خداوند عالم ہی سب کو توفیق دینے والا ہے۔