واضح رہے کہ انبیاءؑ کی تعظیم و تکریم عقلی و شرعی لحاظ سے واجب ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِنْ رُّسُلِہٖ یعنی اس سلسلے میں کسی نبی میں کوئی فرق نہیں ہے، اور ان کی زیارت کرنا ایک پسندیدہ فعل ہے۔ چنانچہ علمائے کرام نے ان کی زیارت کرنے کو یقینی طور پر مستحب قرار دیا ہے۔ انبیاءؑ کی تعداد اگرچہ بہت زیادہ ہے لیکن ہمیں ان میں سے بہت کم نبیوں کی قبریں معلوم ہیں اور جن انبیاءؑ کی قبروں کا ہمیں علم ہے وہ یہ بزرگوار ہیں:
☆ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام نجف اشرف میں امیر المؤمنین علیہ السلام کے روضۂ مبارک میں دفن ہیں۔
☆ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر قدس خلیل میں بیت المقدس کے قریب ہے۔ ان کے نزدیک ہی ان کی زوجہ بی بی سارہؑ، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کی قبریں ہیں۔
☆ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ بی بی ہاجرہؑ مسجد الحرام ﴿کعبہ﴾ میں حجر کے قریب مدفون ہیں اور یہاں دیگر پیغمبروں کی قبریں بھی ہیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ رکن اور مقام کا درمیانی حصہ انبیاء کی قبور سے بھرا ہوا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ستر پیغمبر دفن ہیں۔
☆ پھر بیت المقدس میں پیغمبروں کا ایک گروہ مثل حضرت داؤد علیہ السلام و حضرت سلیمان علیہ السلام و غیرہ دفن ہیں اور ان بزرگان کی قبور مذکورہ مقامات کے لوگوں میں معروف ہیں۔
☆ اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام کی قبر حلب میں
☆ اور حضرت یونس علیہ السلام کی قبر کوفہ کی نہر کے کنارے مشہور معروف ہے۔
☆ نیز حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام نجف اشرف کے قریب وادی السلام میں مدفون ہیں۔
☆ حضرت ذو الکفل علیہ السلام کی قبر کوفہ کے نواح میں چند فرسخ کے فاصلے پر واقع ہے۔
☆ شہر موصل میں حضرت جرجیس علیہ السلام اور بیرون شہر حضرت شیث علیہ السلام کی قبر ہے۔
☆ شوش میں حضرت دانیال علیہ السلام
☆ اور کاظمین میں مسجد براثا کے نزدیک حضرت یوشع علیہ السلام مدفون ہیں۔
کیفیت زیارت
احادیث میں ان بزرگوں کیلئے کوئی مخصوص زیارت وارد نہیں ہوئی، ہاں حضرت آدم علیہ السلام و حضرت نوح علیہ السلام کی زیارت امیر المؤمنین علیہ السلام کی زیارت کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔ تاہم زیارت جامعہ کی روایت کے مطابق انبیاء کی زیارت میں بھی یہی پہلی زیارت جامعہ پڑھی جا سکتی ہے۔ اور اس بات کی تائید یوں ہوتی ہے کہ شیخ محمد بن المشہدی نے مزار میں، سید بن طاؤس نے مصباح الزائر میں، ان کے علاوہ علماء نے کوفہ میں داخل ہونے کے آداب میں حضرت یونسؑ کیلئے یہی زیارت مشہور نقل کی گئی ہے، اور گمان یہ ہے کہ ان لوگوں نے اس قاعدے کلیئے کے تحت ہی اس زیارت کو اس مقام پر نقل کیا ہے، اور یہی سابقہ روایت سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی زائر ان انبیاء میں سے کسی ایک کی زیارت کے وقت اسی زیارت جامعہ کو پڑھے تو بہت مناسب اور موزوں ہے۔ چونکہ قبل ازیں ہم زیارت جامعہ کو نقل کر چکے ہیں لہذا یہاں اسے دوبارہ نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو شخص اس کی تلاوت کرنا چاہتا ہے وہ پہلی زیارت جامعہ کی طرف رجوع کر کے اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔