سترہ ربیع الاول کی رات

یہ رسول اللہ کی ولادت باسعادت کی رات ہے اور بڑی ہی بابرکت رات ہے۔ سید نے روایت کی ہے کہ ہجرت سے ایک سال قبل اسی رات رسول اللہ کو معراج ہوا۔

سترہ ربیع الاول کا دن

علمائے شیعہ امامیہ میں یہ قول مشہور و معروف ہے کہ یہ رسولؐ اللہ کا یوم ولادت ہے اور ان کے درمیان یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت روز جمعہ طلوح فجر کے وقت اپنے گھر میں ہوئی، جب کہ عام الفیل کا پہلا سال اور نوشیرواں عادل کا عہد حکومت تھا۔ نیز 83ھ میں اسی دن امام جعفر صادقؑ کی ولادت باسعادت ہوئی لہذا اس دن کی عظمت و بزرگی میں اور بھی اضافہ ہوا۔

خلاصہ یہ کہ اس دن کو بڑی عظمت عزت اور شرافت حاصل ہے۔ اس میں چند ایک اعمال ہیں:

۱

غسل کرنا۔

۲

آج کے دن روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ روایت ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن کا روزہ رکھنے والے کو ایک سال کے روزے رکھنے کا ثواب عطا فرمائے گا، آج کا دن سال کے ان چار دنوں میں سے ایک ہے کہ جن میں روزہ رکھنا خاص فضیلت و اہمیت کا حامل ہے

۳

آج کے دن دور و نزدیک سے حضرت رسول اللہ کی زیارت پڑھے۔

رسولؐ خدا کی دور سے پڑھنے کی زیارت

۴

اس دن حضرت امیر المؤمنینؑ کی وہ زیارت پڑھے جو امام جعفر صادقؑ نے پڑھی اور محمد بن مسلم کو تعلیم فرمائی تھی، انشاء اللہ وہ زیارت باب زیارات میں آئے گی۔

زیارتِ امیر المومنین روزِ ولادتِ پیغمبرؐ

۵

جب سورج تھوڑا سا بلند ہو جائے تو دو رکعت نماز بجا لائے جس کی ہر رکعت میں سورۂ حمد کے بعد دس مرتبہ سورۂ قدر اور دس مرتبہ سورۂ توحید پڑھے۔ نماز کا سلام دینے کے بعد مصلےٰ پر بیٹھا رہے اور یہ دعا پڑھے:

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ حَيُّ، لَا تَمُوْتُ .... الخ
1
اے اللہ ! تو وہ زندہ ہے جسے موت نہیں
1

یہ دعا بہت طویل ہے اور اس کی سند بھی کسی امام معصومؑ تک پہنچتی دکھائی نہیں دیتی اس لئے یہاں ہم نے اسے نقل نہیں کیا، تاہم جو شخص اس کو پڑھنا چاہے وہ علامہ مجلسی کی زاد المعاد میں دیکھ لے۔

۶

آج کے دن مسلمانوں کو خاص طور پر خوشی منانی چاہیے، وہ اس دن کی بہت تعظیم کریں، صدقہ و خیرات دیں اور مومنین کو شادمان کریں۔ نیز ائمہ طاہرینؑ کے روضہ ہائے مقدسہ کی زیارت کریں۔ سید نے کتاب اقبال میں آج کے دن کی تعظیم و تکریم کا تفصیلی تذکرہ کیا اور فرمایا ہے کہ نصرانی اور مسلمانوں کا ایک گروہ حضرت عیسٰیؑ کی ولادت کے دن کی بہت یاد کرتے ہیں، لیکن مجھے ان پر تعجب ہوتا ہے کہ کیوں وہ آنحضرتؐ کے یوم ولادت کی تعظیم نہیں کرتے کہ جو حضرت عیسٰیؑ کی نسبت بلند مرتبہ ہیں اور ان سے بڑھ کر فضیلت رکھتے ہیں۔